آپ بیتی دنیا کے ہر ادب میں بالعموم سب سے زیادہ پڑھی جاتی ہے، کیونکہ وہ ہلکی پھلکی، تیزگام اور سبق آموز ہوتی ہے۔ اُس میں جو واقعات، مشاہدات اور تجربات بیان کیے جاتے ہیں، اُن میں عقل و دَانش کے موتی جَڑے ہوتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ جب قدرت کسی شخصیت سے کوئی بڑا کام لینا چاہتی ہے، تو پھر اُس میں غیرمعمولی صلاحیتیں پیدا کر دیتی ہے۔ اُردو کے عظیم شاعر اور بلندپایہ محقق احسان دانش کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وہ اَوائل عمری میں پنجاب یونیورسٹی کی تعمیر کیلئے مزدوروں میں شامل تھے۔ پھر اللّٰہ کا کرم ہوا، تو اُن میں حصولِ علم کا شوق پیدا ہوا اَور وُہ اِسی یونیورسٹی کے ایم اے اور پی ایچ ڈی کے طلبہ اور طالبات کیلئے نصف صدی سے زیادہ ممتحن رہے اور بڑے بڑے اہلِ تحقیق رہنمائی کیلئے اُن سے فیض حاصل کرتے رہے۔
مَیں عمربھر قلم کی خدمت بجا لاتا رہا۔ میرے رب کریم نے اِس ناتواں وجود میں ایسی توانائیاں بھر دیں جنہوں نے اُردو اَدب اور تاریخِ پاکستان پر اچھے اثرات مرتب کیے۔ مَیں اپنی آپ بیتی میں اُن اثرات اور تغیرات کا تفصیل سے ذکر کروں گا کہ اُن کا تعلق عوام کی فلاح و بہبود اَور وَطنِ عزیز کی سلامتی اور خودمختاری سے جُڑا ہوا ہے۔ اِس ضمن میں وہ آزمائشیں بھی آئیں گی جن سے ہمارے بعض حکمران لرزہ براندام رہے، لیکن وہ میرے لیے اذیت سے زیادہ عزت و تکریم کا باعث بنیں۔ زندگی دراصل حق و باطل میں کشمکش کا نام ہے۔
مَیں بفضلِ خدا اِس وقت پاکستان کا سینئر ترین صحافی ہوں۔ اِس پیرانہ سالی میں مجھے خیال آیا کہ زندگی میں جو کچھ دیکھا اور جتنا کچھ سیکھا، سب کا سب اپنے ہم وطنوں کو منتقل کرتا چلوں، ممکن ہے اُن کے کچھ کام آ جائے۔مَیں اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا، اِسلئے خاندان میں سبھی کی نظروں میں رہا۔ اُن کی شفقت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ میری پیدائشی طور پہ نگاہ کمزور تھی اور میرا جسم معمولی گرمی بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ میرے بھائی اعجاز حسن مجھ سے عمر میں دو سال بڑے اور تعلیمی درجات میں تین سال آگے تھے۔ اُن کی طبیعت میں مہم جُوئی کا عنصر غالب تھا، چنانچہ وہ اَپنے آباؤاجداد کے حالات معلوم کرتے اور رِشتے داروں سے ملتے رہتے تھے۔ ہم دونوں بھائیوں نے ایک ہی اسکول میں پڑھا تھا۔ پرائمری اسکول کی ایک بات نے میری زندگی پہ گہرا اَثر ڈالا۔ ہمیں حبیب صاحب پڑھایا کرتے تھے۔ وہ جب اسکول آتے، تو ہندو، مسلم سب اُنہیں سلام کرتے اور بڑی عزت سے پیش آتے۔ اِس عزت و تکریم کو دیکھ کر میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ بڑا ہو کر مَیں بھی اُستاد بنوں گا۔ جب مَیں نے عملی زندگی میں داخل ہو کر اُستاد بن جانے کی کوشش کی، تو عجیب و غریب واقعات پیش آئے اور مَیں معلم نہ بن سکا۔
ہائی اسکول میں ہم دونوں بھائیوں کا معمول یہ تھا کہ اسکول سے آنے کے بعد کھانا کھاتے، کچھ دیر قیلولہ کرتے، قرآن شریف پڑھتے اور شام کے وقت اسکول سے باہر پلےگراؤنڈ میں کھیلنے چلے جاتے۔ شام کے بعد پڑھنے بیٹھ جاتے۔ اعجاز حسن صاحب مجھے ہر مضمون پڑھاتے، لیکن انگریزی پہ خصوصی توجہ دیتے، کیونکہ اِس کے حوالے سے ایک ناقابلِ یقین واقعہ پیش آ چکا تھا۔ وہ یہ کہ جب مَیں نے پرائمری اسکول پاس کر لیا، تو مجھ سے سات آٹھ سال بڑے ہم جماعت عبدالرؤف سے جامع مسجد میں تفصیلی ملاقات ہوئی۔ ہمارے شہر میں چند مسلم تاجر خاصے خوشحال تھے جن میں سے ایک کا نام جناب عبدالحکیم تھا۔ وہ جوتوں کی دکان کرتے اور غریبوں کے کام آتے رہتے۔ اُنہوں نے دکان کے برآمدے میں میرے کلاس فیلو کو چھوٹی سی دکان لگانے کی اجازت دے رکھی تھی جو انگریزوں کے بہت خلاف تھا۔ ہائی اسکول میں داخلے سے چند روز پہلے اُس نے مجھے یہ بات سمجھانا شروع کی کہ ہمیں انگریزی زبان نہیں پڑھنی چاہیے، کیونکہ یہ انگریزوں کی زبان ہے جو کافر اور مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ ہم دونوں باقاعدگی سے عصر کی نماز اکٹھی پڑھتے تھے، اِس لیے عبدالرؤف کو میرے ذہن میں یہ بات بٹھانے کا وقت مل گیا کہ ہمیں انگریزی زبان پڑھنے کے بجائے قرآن حفظ کرنا چاہیے۔ میرے بڑے بھائی افروغ حسن حافظِ قرآن تھے۔ ہم نے اُنہی کے قاری صاحب سے قرآن حفظ کرنا شروع کر دیا۔
گھر والوں نے ہمارے منصوبے کی مخالفت نہیں کی، کیونکہ قرآن حفظ کرنا بہت بڑی سعادت خیال کی جاتی تھی۔ والدِبزرگوار شیخ عبدالغفار جو محکمۂ انہار میں پٹواری تھے، وہ جب دورے سے واپس آئے، تو اُنہیں معلوم ہوا کہ الطاف نے پانچویں جماعت میں داخلہ نہیں لیا اور اَب اُس کا وقت بھی گزر گیا ہے۔ والدصاحب نے داخلہ نہ لینے کی وجہ پوچھی، تو مَیں نے پورے اعتماد سے کہا کہ ہمیں ہائی اسکول میںا نگریزی پڑھنا ہو گی جو مسلمانوں پہ حرام ہے۔ اُنہوں نے پوری بات سننے کے بعد مجھے اپنے پاس بٹھایا اور آنکھوں میں آنسو لاتے ہوئے سمجھایا کہ آج کے زمانے میں آگے بڑھنے کے لیے انگریزی پڑھنا ضروری ہے، میری طرف دیکھو کہ مَیں فتح آباد میں انگریزی اسکول نہ ہونے کے باعث انگریزی نہیں پڑھ سکا، لہٰذا مجھے اچھی ملازمت نہیں ملی اور جو ملی، اُس میں کوئی تیس سے زائد سال گزار دینے کے باوجود کوئی ترقی نہیں ہوئی، چنانچہ مَیں رات دن کھیتوں کی پیمائش کرتا ہوں اور کئی کئی ہفتے گھر سے باہر رہتا ہوں۔ کیا تم بھی اپنے لیے ایسا ہی مستقبل چاہتے ہو؟
وہ بہت غمزدہ تھے، مگر اُنہوں نے بڑی حکمت سے مجھے اپنی غلطی کا احساس دلایا۔ اب مجھے یہ خیال ستانے لگا کہ داخلے کا وقت گزر چکا ہے اور غلطی کی تلافی تقریباً ناممکن ہے، کیونکہ ہندو اَساتذہ مسلمانوں کو داخلے دینے کے حق میں نہیں تھے۔ والدصاحب نے کہا تم داخلہ لینے کی تیاری کرو اَور مَیں ہیڈماسٹرصاحب سے مل کر کوئی راستہ نکالنے کی کوشش کروں گا۔ اُنہوں نے اپنے انگریز ضلعےدار سے اِس ضمن میں بات کی اور اُن کی سفارش پہ ہیڈماسٹرصاحب نے دو ہفتے گزر جانے کے باوجود مجھے داخلہ دیدیا۔ والدصاحب کی شفقت نے مجھے بہت بڑے بحران سے بچا لیا تھا جو ہم جماعتوں کے مابین عمر کے بہت بڑے تفاوت سے پیدا ہوا تھا۔