• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حجام کی دکان نہیں رہی،اب سیلون کا زمانہ ہے۔شہروں میں لوگ سیلون اس کو کہتے ہیں جہاں کم از کم بھی ایک ٹن کا اے سی لگا ہو۔ اے سی نہ لگا ہو تو حجام کو باربر کہنے کا دل ہی نہیں کرتا۔اپنا آپ بھی کسٹمر کی بجائے گاہک لگنے لگتا ہے۔یہ بھی لگتا ہے کہ یہاں عطااللہ عیسیٰ خیلوی کے گانے چلتے ہوں گے اور ایک ریزر دو بار استعمال کیا جاتا ہوگا۔دو ٹن کا اے سی لگا ہو تو لگتا ہے یہاں بیلی آئلیش کے ٹریک چلتے ہوں گے اور چست قسم کی اسپائیک بنائی جاتی ہو گی۔

لوگ اپوائنٹمنٹ لیکر سیلون جاتے ہیں اسلئے باری کا زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑتا۔انتظار کرنا پڑ جائے تو بوریت نہیں ہوتی۔وائی فائی کاپاسورڈ لیں اور دنیا سے کنیکٹ ہوجائیں۔سیلون میں لوگوں کا شور نہیں ہوتا، موبائلوں پر چلنے والی ریلز کا شور ہوتا ہے۔کسی کے موبائل پر کامیڈی ہے،کسی پرمیوزک ہے اور کسی پر کوئی یوٹیبیائی دانشور ہے جو کہہ رہا ہے لنگوٹ کس لو نیپال والا انقلاب پاکستان پہنچ رہا ہے۔

حجام کی دکان سیلون سے بالکل مختلف ایک چیزتھی۔وہاں بال ہی نہیں بنائے جاتے تھے سر بھی کھائے جاتے تھے۔حجام کی دکان پر اے سی نہیں دیکھا جاتا تھا، اخبار دیکھا جاتا تھا۔اب تو سیلون پہنچتے ہی لوگ سی ٹائپ چارجر کا پوچھتے ہیں،تب اخبار کا پوچھتے تھے۔

اخبار سے پتہ چلتا تھا کہ حجام کا معیار کیا ہے۔جسکے پاس کل کا اخبار ہوتا وہ آج کے حساب سے بغیر اے سی والا حجام ہوتا تھا۔جسکے پاس نوائے وقت ہوتا وہ ایک ٹن اے سی والاحجام ہوتا تھا۔دو ٹن اے سی والا حجام وہ تھا جسکے پاس جنگ اخبار ہوتا تھا۔جوحجام طبعیت کا بنیا ہوتا تھا اس نے نوائے وقت اور جنگ دونوں رکھے ہوتے تھے۔ وہ دوپہر کو توے سے اترا ہوا گرما گرم ضمیمہ بھی خرید لیتا تھا۔رنگا رنگی کی وجہ سے سب سے زیادہ بحث مباحثے اسی حجام کے ہاں ہوتے تھے۔حجام کی اس دکان کی ریٹنگ ہائی ہوتی تھی جہاں لوگ دو سیاست دانوں کی طرح گتھم گتھا ہوجاتے تھے۔چھوٹو بیچ بچائو کرواتا تھا اور حجام پروڈیوسر کی طرح دل ہی دل میں ہنس رہا ہوتا تھا۔

حجام کی دکان کو آپ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کہہ سکتے ہیں۔وہاں اخبار کا پہلا صفحہ ٹویٹر ہوتا تھا، میگزین پیج انسٹا گرام ہوتا تھا اور ادارتی صفحہ فیس بک ہوا کرتا تھا۔سب سے کم ویوز اور لائیکس اداریے کو ملتے تھے۔وائرل ہونا تو اداریے کے نصیب میں ہی نہیں تھا۔مجھے یاد نہیں پڑتا کہ حجام کی دکان سے کبھی کسی نے اداریے کو بھی ری ٹویٹ یا شیئر کیا ہو۔حجام کی دکان سے تھڑے اور تھڑے سے چوک چوراہے تک باقاعدہ وائرل ہونے والی چیز یا تو خبر تھی یا پھر سلگتے ہوئے کالم تھے۔اپنے پسندیدہ کالم نگار کا نام بتاکر لوگ اپنا تجزیاتی مقام جتلاتے تھے۔ایک چوڑا ہوکر کہتا میں رفیق افغان کا دیوانہ ہوں۔

دوسرا کریز سے باہر نکل کر کہتا میں تو جاوید چوہدری کامداح ہوں۔تیسرا یہ کہہ کر گیند بائونڈری لائن سے باہر پھینک دیتا کہ لکھاری تو بس عطا الحق قاسمی ہیں۔ایک خضابی کلرک مجیب الرحمان شامی اور عبدالقادر حسن کا نام لے کر سب کی وکٹیں اڑا دیتا تھا۔ہیلمٹ چٹخا دینے والا بائونسر اس کا ہوتا تھا جو کہتا، بھئی ہم تو اداریہ پڑھتے ہیں۔اداریے کا دعویٰ کرنے والا باقیوں کو اسی حقارت سے دیکھتا تھا جس حقارت سے ٹویٹر اور فیس بک کا صارف ٹک ٹاکر کو دیکھتا ہے۔اداریہ پڑھنے والے کو سات جھوٹ معاف تھے۔وہ اگر کہہ دے کہ مساوات کا اداریہ مولانا ظفر علی خان لکھتے تھے تو ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔اداریہ پڑھنے والے کو حجام بھی اپنے سے بڑا تجزیہ کار مانتا تھا۔خط بناتے وقت حجام اس سے الجھتا تھا نہ غیر ضروری بات کرتا تھا۔اداریہ در اصل ایک کیفیت کا نام تھا۔جو شخص ٹھہرائو کے ساتھ بولتا، بڑے سائز کا چشمہ لگاتا اور اچھی سیگریٹ پیتا اسکے بارے میں ویسے ہی گمان ہوتا کہ یہ اداریہ پڑھتا ہوگا۔اداریہ خود بھی ایسا ہی لگتا ہے جیسے کالم نگاروں کی زعفرانی محفل میں سنجیدہ سا کوئی شخص ایک طرف بیٹھا اپنے آپ سے باتیں کر رہا ہے۔یہ شخص پہلے اچھے سے تولتا ہے پھر بولتا ہے۔جب بولتا ہے تو لطیفہ کستا ہے نہ شعر کہتا ہے اور نہ طنز کرتا ہے۔یہ روتا ہے اور نہ ہنستا ہے۔اچھی خبر سنے یا بری، میاں صاحب کی طرح چہرے کے تاثرات ایک جیسے رکھتا ہے۔موسم جیسا بھی ہو اس نے سفید کرتا پاجامہ ہی پہننا ہوتا ہے۔

جنگ اخبار کا اداریہ بند ہونے پر محمود شام صاحب کی اداسی دیکھی تو میں بھی اداس ہوگیا۔ان کی اداسی ہر طرح سے سمجھ آرہی تھی۔مگر حجام پریس ایسوسی ایشن سے آنے والی اپنی جیسی پود کو سوگ میں دیکھا تواحساس کمتری میں مبتلا ہوگیا۔مجھے لگا جیسے ایک میرے علاوہ سبھی اداریہ پڑھ رہے تھے اور آج بھی پڑھ رہے تھے۔اداریہ تو تب بھی کوئی نہیں پڑھتا تھا جب روٹیوں کے ساتھ آنے والے اخبار کا چُرمرایا ہوا ٹکڑا بھی لوگ پڑھ جاتے تھے۔اب جب کوئٹہ ماشااللّٰہ کیفے والے نے بھی وائی فائی لگا لیا ہے تب اداریہ کون پڑھ رہا تھا۔

بی بی سی کے پروگرام سیربین کی نشریات ختم ہونے پر لوگ افسردہ ہوئے، بات سمجھ آتی ہے۔مگر اداریہ؟مجھے تولگتا تھا کہ اداریہ گم سم سے تایا جی ہیں جو وقت پر سو جاتے ہیں اور منہ اندھیرے اٹھ جاتے ہیں۔کم دودھ اور ہلکی پتی والی چائے بغیر چینی کے پیتے ہیں اور اخبار لیکر چبوترے پر بیٹھ جاتے ہیں۔فرمان الٰہی سے شروع ہوتے ہیں اور کلاسیفائیڈ اشتہارات تک سب پڑھ جاتے ہیں۔

کمتری کا احساس مجھے کہیں کا نہ چھوڑتا اگربھٹی بیچ میں نہ آتا۔بھٹی کہتا ہے، پائین اداسیاں اس گل تے نئیں کہ اداریہ بند ہوگیا ہے۔اداسی اس بات پر ہے کہ گم سم سے ایک بابا جی جو بغیر کسی ناغے کے یہاں نظر آتے تھے، اب نظر نہیں آرہے۔ان کے بغیرچبوترا خالی خالی سا لگ رہا ہے۔اوہی غالب آلی گل اے

ہر اک مکان کو ہے مکین سے شرف اسد

مجنوں جو مرگیا ہے تو جنگل اداس ہے

تازہ ترین