اس ایک کہانی میں کئی کہانیاں ہیں۔ یہ حسین نقی کی بدتمیزیوں کی کہانی ہے لیکن اس میں قیام پاکستان کی کہانی بھی موجود ہے۔ پاکستان میں جمہوریت اور صحافت کیساتھ ظلم و ستم کی کہانی حسین نقی کی کہانی کیساتھ ساتھ چلتی ہے۔ یہ دراصل حسین نقی صاحب کی سوانح حیات ہے۔ اس سوانح حیات کا نام ’’مجھ سے جو ہو سکا “ ہے۔ اس سے پہلے انسٹیٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ کراچی کے زیراہتمام حسین نقی صاحب کے بارے میں ایک کتاب ’’جرات انکار‘‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ یہ ڈاکٹر سید جعفر احمد کا حسین نقی کیساتھ ایک طویل انٹرویو ہے۔ کچھ عرصہ قبل میں نے اپنے کالم میں اس کتاب کا ذکر کیا تو ایک معروف ٹی وی اینکر نے پوچھا کہ آپ حسین نقی سے اتنے متاثر کیوں ہیں؟ میں نے بتایا کہ نقی صاحب صحافت کی آزادی کیلئے کئی مرتبہ جیل جا چکے ہیں۔ خود مجھے بھی کچھ عرصہ تک اُن کیساتھ کام کرنے کا موقع ملا جب وہ دی نیوز لاہور کے ایڈیٹر تھے۔ میں روزنامہ جنگ لاہور میں رپورٹر تھا لیکن 1991ء میں مجھے دی نیوز لاہور کا اجراء کرنیوالی ٹیم میں شامل کر دیا گیا۔ اُسوقت نواز شریف کی حکومت نے میڈیا کو لگام ڈالنے کیلئے خصوصی عدالتیں بنانے کے منصوبے پر کام شروع کیا تو میں نے اس منصوبے کیلئے وفاقی وزارت اطلاعات کی طرف سے تیار کی گئی سمری حاصل کرلی اور سٹوری فائل کردی۔ نقی صاحب نے میری سٹوری صفحہ اول پر شائع کی اور اس کے بعد جو بھی دباؤ آیا وہ نقی صاحب نے برداشت کیا ۔ پھر وہ استعفیٰ دیکر گھر چلے گئے اور میں واپس جنگ میں چلا گیا ۔بعد میں حسین نقی صاحب کیساتھ میری نیاز مندی برقرار رہی ۔ میری بات سُن کر ٹی وی اینکر نے کہا کہ آپ کے کالم میں حسین نقی کے بارے میں کتاب کا ذکر پڑھ کر میں نے انکی کتاب منگوائی۔ خیال تھا کہ کتاب سے کچھ سیکھوں گا لیکن انکی کتاب میں تو بار بارگرفتاریوں کے واقعات ہیں اور ایک جگہ انہوں نے ٹی وی اینکرز کو کمیشن ایجنٹ قرار دے دیا ہے پھر بھی آپ اُنکی تعریفوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے رہتے ہیں حالانکہ آپ بھی ٹی وی اینکر ہیں ۔ یہ سُن کر میری ہنسی نکل گئی ۔ میرے اینکر دوست نے حیرانی سے پوچھا کیاآپ ٹی وی اینکر نہیں ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ میرا موقف بڑا واضح ہے۔ میں صحافی ہوں۔ ہر صحافی ٹی وی اینکر بن سکتا ہے لیکن ہر ٹی وی اینکر صحافی نہیں بن سکتا ۔ جب بھی مجھ پر پابندی لگتی ہے اور مجھے پاکستانی میڈیا کی اسکرینوں سے غائب کیا جاتا ہے تو میں غیر ملکی اخبارات میں لکھنا شروع کر دیتا ہوں لہٰذا میں ٹی وی اینکر کی تعریف پر پورا نہیں اترتا۔ معاملہ دراصل یہ تھا کہ حسین نقی صاحب سے سوال کیا گیا کہ ٹی وی اینکرز کی تنخواہیں اتنی زیادہ کیوں ہوتی ہیں ؟ یہ سوال سابق چیف جسٹس ثاقب نثار بھی بار بار اٹھاتے تھے ۔ ایک دفعہ تو انھوں نے بھری عدالت میں مجھے کہا کہ آپ اپنی سیلری سلپ لیکر آئیں ۔ اگلے دن میں نے انہیں سیلری سلپ دی تو اُسے دیکھ کر وہ خاموش ہو گئے اور اُس کاغذ کو اپنی جیب میں ڈال لیا کیونکہ جو انہیں بتایا گیا تھا وہ غلط تھا۔ دنیا بھر میں بڑے ٹاک شوز کرنے والے اینکرز کی بڑی بڑی تنخواہیں ہوتی ہیں۔ جب یہ سوال حسین نقی صاحب سے کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اینکرز کے پروگراموں کو اشتہارات ملتے ہیں، جو زیادہ اشتہارات لاتا ہے اُسے زیادہ کمیشن ملتا ہے اسلئے یہ اینکرز دراصل کمیشن ایجنٹ ہیں۔ نقی صاحب کے موقف سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے لیکن وہ اختلاف رائے کرنے والوں سے نفرت نہیں کرتے۔ ایک مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس ثاقب نثار نے انہیں اپنی عدالت میں بلا لیا تھا اور اُنہیں بدتمیز آدمی قرار دیدیا تھا ۔ معاملہ اتنا بڑھ گیا کہ چیف جسٹس نے نقی صاحب سے معافی مانگنے کا مطالبہ کر دیا ۔ میری رائے یہ تھی کہ نقی صاحب کو معافی نہیں مانگنی چاہیے لیکن انہوں نے عدالت کے احترام میں معافی مانگ لی تھی۔ نقی صاحب نے’’ مجھ سے جو ہو سکا ‘‘ کا اختتام اسی معافی پر کیا ہے اور لکھا ہے کہ میں نے ساری زندگی پالیسوں اور شخصیات سے اختلاف کیا ہے لیکن اداروں کا احترام کیا ہے اسلئے میں نے عدالت سے معذرت کرلی۔ یہ بڑی اہم بات ہے ۔ کسی شخصیت کی پالیسی سے اختلاف کو ادارے کبساتھ لڑائی میں تبدیل نہیں کرنا چاہئے ۔ حسین نقی نے تو بچپن میں اپنے والد سید محمد نقی کے ساتھ بھی سیاسی اختلاف شروع کر دیا تھا لیکن بطور والد اُنکا ہمیشہ احترام کیا۔ حسین نقی 1936ء میں لکھنو میں پیدا ہوئے ۔ 1946 ء میں وہ صرف دس سال کے تھے 1946 ء کے انتخابات میں اُنکے والد شیعہ پولٹیکل کانفرنس کے اُمیدوار علی ظہیر کی حمایت کر رہے تھے ۔ علی ظہیر کو کانگریس کی حمائت بھی حاصل تھی ۔ اُنکا مقابلہ مسلم لیگی امیدوار چوہدری خلیق الزمان سے تھا ۔ حسین نقی سمیت اُنکے خاندان کے اکثر بچے مسلم لیگی اُمیدوار کی حمائت کر رہے تھے جبکہ انکے والد کی حمائت کے باوجود علی ظہیر یہ الیکشن ہار گئے ۔ حسین نقی صاحب نے اپنی سوانح میں لکھا ہے کہ 1946 ء میں مسلم لیگ کی مقبولیت کی وجہ یہ تھی کہ کانگریس مسلمانوں کے خلاف تعصب رکھتی تھی ۔ نقی صاحب نے لکھا ہے کہ قائد اعظم نے ہندوستان کی تقسیم کو مان کر بہت سی تقسیموں کو روک دیا ۔ وہ 1954 ء میں 18 سال کی عمر میں پاکستان آئے۔ کراچی یونیورسٹی میں پہنچے تو جنرل ایوب خان کے خلاف تحریک میں متحرک ہو گئے ۔ انہیں تین سالہ ڈگری کورس کے خلاف مظاہرے کرنے پر کراچی بدر کر دیا گیا ۔ اس زمانے میں نقی صاحب نے بہاولپور ، ملتان، ساہیوال اور لاہور میں وقت گزارا ۔ کراچی بدری ختم ہونے کےبعد وہ کراچی یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے صدر بنے ۔ پھر حسین نقی صحافی بن گئے حسین نقی اپنی صحافت کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری حکومت میں بھی گرفتار ہوئے اور جنرل ضیاء کے مارشل لاء میں بھی گرفتار ہوئے ۔ بھٹو صاحب سے اُنکی گہری شناسائی تھی۔ جب نقی صاحب نے پاکستان کے پہلے سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر سے سرعام اختلاف کیا تو گرفتار کر لئے گئے ۔ اُن پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلا اور ایک سال قید کی سزا ملی۔ جنرل ضیاء کا مارشل لاء آیا تو حسین نقی پھر گرفتار ہو گئے ۔ گرفتاری کے بعد انہیں شاہی قلعے لاہور کے عقوبت خانے میں بند کر دیا گیا۔ یہاں اُن سے تفتیش کیلئے ایک پولیس افسر آیا تو نقی صاحب کو دیکھ کر بولا کہ آپ کو تو بھٹو حکومت نے بھی گرفتار کیا تھا ۔ اب آپ پھر گرفتار ہو گئے ہیں آپ کو ہر حکومت سے اختلاف کیوں ہو جاتا ہے؟ نقی صاحب نے کہا مجھے نہیں حکومتوں کو مجھ سے اختلاف ہو جاتا ہے۔ حسین نقی کا تعلق لکھنو کے ایک اُردو سپیکنگ خاندان سے تھا لیکن اُنہوں نے لاہور سے پہلا پنجابی اخبار’’سجن‘‘ نکالا ۔ اس اخبار میں اُن کیساتھ شفقت تنویر مرزا، نجم حسین سید، ظفریاب، اکرم وڑائچ ، جمیل پال اور لاہور قلندرز کے بانی رانا فواد سمیت بہت سے لوگوں نے کام کیا لیکن پنجابی زبان کا یہ اخبار صرف 18 ماہ چلا۔ 1990میں محترمہ بے نظر بھٹو کی حکومت ختم ہوئی تو غلام مصطفیٰ جتوئی کی نگران حکومت نے ’’سجن‘‘ کے اشتہارات بند کر دیئے ۔ نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ انہوں نے بھی اس پنجابی اخبار کے اشتہارات بند کر دیئے۔ حسین نقی سے جو ہو سکا اُنہوں نے کیا لیکن پنجاب کی حکمران اشرافیہ نے اُنکے پنجابی اخبار کو نہ چلنے دیا۔ بعد میں نقی صاحب عاصمہ جہانگیر کے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان سے وابستہ ہو گئے اور انگریزی اخبارات میں کالم لکھتے رہے۔فرخ سہیل گوئندی کا شکریہ کہ انہوں نے حسین نقی صاحب کی آب بیتی شائع کرکے ایک ایسے صحافی کی کہانی کو تاریخ میں محفوظ کر دیا ہے جسے ایک چیف جسٹس آف پاکستان نے بد تمیز قرار دیا تھا ۔نقی صاحب کا قصور صرف یہ تھا کہ انہوں نے چیف جسٹس کے سامنے سچ بولا تھا ۔ چیف جسٹس کے ریمارکس اُن کیلئے کسی تمغہ جرات سے کم نہ تھے کیونکہ جس صحافی میں جرات انکار نہ ہو وہ صحافی کہلانے کے لائق نہیں..