برطانیہ کے نائب وزیرِاعظم ڈیوڈ لیمی نے کہا ہے کہ فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا فیصلہ فوری طور پر ایک آزاد ریاست کا قیام نہیں، بلکہ یہ اقدام امن مذاکرات کو آگے بڑھانے کی کوششوں کا حصہ ہے۔
انہوں نے برطانوی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنا ایک اہم سفارتی اقدام ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کل ہی فلسطینی ریاست وجود میں آ جائے گی، یہ عمل طویل مدتی امن کے حل کی طرف ایک قدم ہے۔
برطانوی حکومت نے حال ہی میں اعلان کیا تھا کہ وہ فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جس کا مقصد اسرائیل و فلسطین تنازع کے حل کے لیے بین الاقوامی دباؤ بڑھانا ہے، تاہم نائب وزیرِ اعظم ڈیوڈ لیمی نے واضح کیا کہ اس قدم سے فوری طور پر سرحدیں، حکومت یا عسکری اختیارات کا قیام عمل میں نہیں آئے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت کی حمایت کرتا ہے، لیکن اس کے لیے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مذاکرات کی ضرورت ہے، برطانیہ امن کے عمل کو فروغ دینے کے لیے تمام فریقوں کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔
فلسطینی حکام نے برطانیہ کے اس اقدام کا خیر مقدم کیا ہے، جبکہ اسرائیلی حکومت نے اسے ’غیر مفید‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امن کا واحد راستہ براہِ راست مذاکرات ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر فلسطین کو تسلیم کرنے کے اقدامات سیاسی دباؤ کا ذریعہ ہیں، لیکن حقیقی تبدیلی کے لیے زمینی سطح پر معاہدوں اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
برطانیہ کا یہ اعلان اس وقت آیا ہے جب یورپی یونین کے کئی دیگر ممالک بھی فلسطین کو مکمل ریاست کا درجہ دینے پر غور کر رہے ہیں۔