• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملاعلی کردستانی نام کا ایک عراقی تعویذگر تھا۔دعویٰ تھا کہ گونگوں کوگویائی بہروں کوسنوائی اور اندھوں کوبینائی دیتاہے۔بااثر لوگوں نے بلائیں لینے کیلئے اسے پاکستان ہی بلالیا۔ایسے کرداروں کو پاکستان بلانے کی روایت پرانی ہے۔جنرل یحییٰ خان نے انڈونیشیا سے زہرہ فونا کوبلایا تھا۔بتایا گیا کہ اسکے پیٹ میں بچہ ہے جواذان دیتا ہے۔پاکستان بھر میں زہرہ اپنے بچے کی اذان سناکر نذرانے وصول کرتی رہی۔کراچی پہنچی توتہہ درتہہ پوشاک سے ٹیپ ریکارڈر برآمد ہوگیا۔زہرہ غائب۔ایسی غائب کہ سایہ تک نہ ملا۔ایسا ہی ایک کردار پچھلے سال ڈاکٹر زہیراحمد کے نام سے سامنے آیا۔خودکو MIT کاگریجویٹ اورکوانٹم کمپیوٹنگ کا ماہر بتاتا تھا۔ اسلام آباد اور لاہور کی بڑی جامعات میں اوپر تلے کئی لیکچر دیے۔کچھ جامعات نے اسے اعزازی ڈگریوں سے بھی نوازا۔پختونخواحکومت نے تو اسکے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط بھی کردیے۔ مگر ایک سائنسی محقق شہیر نیازی نے MIT سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ جناب کی ڈگری اور دعویٰ دونوں جعلی ہیں۔ تب سے کوانٹم کمپیوٹنگ کا یہ ماہر خدا جانے کہاں غائب ہے۔ اب یہاں مجھے پانی سے گاڑی چلانے والا آغا وقار بھی یاد آرہا ہے مگر ہم ملا کردستانی کی بات کریں گے۔ ملا کردستانی کو سرکاری پروٹوکول میں شہر شہر گھمایا گیا۔گنبد و مینار پہ چڑھ کر اسکی مسیحائی کی قسمیں کھائی گئیں۔ اسپیکر نے قومی اسمبلی میں میزبانی کی۔وزیروں مشیروں، ججوں اورجرنیلوں نے اس سے بچے دم کروائے۔شوبز کے ستارے بھی آگے آگے رہے۔تب کامران ٹیسوری نہیں ہوتے تھے۔وہ ہوتے تو کردستانی کے ساتھ ملکر گورنر ہائوس میں آستانہ ہی کھول لیتے۔بینائی اور گویائی تو دور کی بات، ملا کردستانی کے جنتر منتر سے کسی کا نزلہ بھی ٹھیک نہ ہوا۔پاکستان سے واپس عراق گیا تو اسکی پگڑی کھل گئی۔معلوم ہوا کہ اسکے خلاف تو فراڈ کے کیسز درج ہیں۔ عراق اور سعودیہ میں جیل کاٹ چکا ہے اور استنبول کی پولیس بیتابی سے راہ تک رہی ہے۔اب ملا کردستانی کہاں ہے کس حال میں ہے کسی کوکوئی خبر نہیں ہے۔بات یہ ہے کہ شعبدہ بازوں اور جعلسازوں کی یہاں آئو بھگت ہے۔ایسے سماج میں HPV ویکسین کو شک کی نظر سے دیکھا جائے توحیران نہیں ہونا چاہیے۔یہ تو ہرگز نہیں کہنا چاہیے کہ یہ صرف ان پڑھ جاہل عوام کا مسئلہ ہے۔ہم سبھی ملا کردستانی کے مرید ہیں، بس سائز کا فرق ہے۔کوئی لارج ہے کوئی ایکسٹرا لارج ہے۔میڈیم سائز اس میں آخری ہے ۔ باقی امت کا نہیں پتہ، جو امت پاکستان میں پائی جاتی ہے وہ تو اقبال کے بقول خرافات میں کھوگئی ہے۔حالات پہلے بھی مثالی نہیں تھے، مگر پہلے کچھ کتاب پسند صوفی بھی ہوا کرتے تھے۔ابن عربی کی فتوحات اور سرہندی کے مکتوبات کا حوالہ دیتے تھے۔اب تو موٹیویشنل اسپیکر ہیں اور نرے نجومی ہیں۔بھاشن دیتے ہیں طوطا فال نکالتے ہیں۔یہ اب اقتدار میں حصہ دار بھی ہوگئے ہیں۔ایک سالم حکومت انہوں نے امامیہ جنتری پر چلانے کی کوشش کی ہے۔حالانکہ انکے وزیر اعظم آکسفورڈ کے جہاندیدہ گریجویٹ تھے۔سیاسی جمع تفریق کی بجائے وہ زائچہ نکال کر منصب عطا کرتے تھے۔ راسپوتین کی اجازت نہ ہوتی تو قریبی دوستوں کے جنازوں اور ہزارہ ہم وطنوں کی لاشوں سے بھی دور رہتے تھے۔کس کس کی بات کریں اور کہاں تک کریں۔یہاں تو ایک روشن فکر سیاسی جماعت کے سربراہ کو بھی جھاڑ پھونک پر رکھا گیا۔ایک تعویذ گر پانچ برس تک ایوان صدر میں مقیم رہا ہے۔یہ آنکھیں اس کے تام جھام کی گواہ ہیں۔ایوان میں ان کا رتبہ فرحت اللہ بابر جیسے جینئس رہنمائوں سے بھی بلند تھا۔اچھا ہی ہوا جو فرحت اللہ بابر صاحب نے اپنی کتاب میں اس کا ذکر نہیں کیا۔یہاں اسلام آباد سے کچھ آگے ایک ملا کردستانی رہتاہے۔لوگ اسے شف شف سرکار کہتے ہیں۔ آنکھوں سے چینیں اور منہ سے کیلیں نکالتا ہے۔لوگ تو چلو جاہل ہیں، مگر قوم کی تقدیر لکھنے والوں کو کیا ہوا جو کسی شعبدہ باز کے آستانے پرحاضری لگاتے ہیں۔جنگل کی آگ کی طرح وائرل ہونے والی ویڈیو اپنے دیکھ لی ہوگی۔اسکول کی کچھ بچیاں ہیں جنکی طبیعت بگڑی ہوئی ہے۔کئی سال پرانی اس ویڈیو کو آج HPV ویکسین سے جوڑنے والے کیا کچی آبادی میں پلنے والے آوارہ لڑکے ہیں؟ نہیں جناب، انکے والدین پاکستان کے پالیسی ساز اداروں کا حصہ رہ چکے ہیں۔انہی سیانوں نے اڑائی تھی کہ پولیو کے قطرے ہمارے بچوں کو نامرد کرنے کی سازش ہے۔اب کہہ رہے ہیں کہ HPV ویکسین عورتوں کو بانجھ کرنے کی سازش ہے۔حیرت ہے کہ ٹھنڈے میں کیمیکل اور گرم میں دنداسے کا عرق پینے والے کہہ رہے ہیں کہ ہمیں نامرد کرنے کی کوئی سازش ہورہی ہے۔یعنی دوا خانوں کے اشتہاروں سے بھری ہوئی دیواریں جس چیز کو ہماری قومی بیماری بتا رہی ہیں اسی چیز کی دنیا کو فکر لاحق ہوگئی ہے؟ اب ایک نیا واہمہ آگیا ہے۔عالمی طاقتیں ان ویکسین کے ذریعے ہمارے جسم میں کوئی چپ داخل کر رہی ہیں۔اللہ اکبر!! شکر بجالانا چاہیے کہ HP وائرس سے بروقت بچائو کیلئے ویکسین ہاتھ آگئی ہے۔ایچ پی وائرس کو بروقت نہ روکا جائے تو ایک دن یہ کینسر بن جاتا ہے۔فکری کینسر کی کہانی بھی یہی ہے۔چالیس برس پہلے جہالت کے وائرس سے بچائو کیلئے ویکسین نہیں دی گئی تو آج وہ ذہنی سرطان میں بدل گیا ہے۔اس ذہنی سرطان نے فکری خلجان اتنا بڑھا دیا ہے کہ محکمہ صحت کی ہمت جواب دے گئی ہے۔ کیمرے کے سامنے اپنی بیٹی کو ویکسین لگا کر وزیر صحت کو یقین دلانا پڑ رہا ہے کہ خطرے کی کوئی بات نہیں ہے۔ اگر والدین اگلی نسل کو کینسر سے بچانا چاہتے ہیں تو فوری طور پر تین کام کریں۔ جسے فکری سرطان لاحق ہو اسے سوشل میڈیا پر بلاک کردیں۔ سائنس پر بھروسہ کرتے ہوئے بچیوں کو ویکسین لگوا دیں۔ بچوں کو ایسے ہرتھیٹر سے دور کردیں جہاں کوئی ملا کردستانی رومال سے کبوتر بناکر دکھا رہا ہو۔یہ تین کام کرلیں تو اگلی نسل اس کینسر سے ہی نہیں بچے گی بلکہ اس کینسر سے بھی بچ جائے گی جو فکر میں پیدا ہوتا ہے۔

تازہ ترین