• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قوم ، گروہ اور فردکو زندگی میںمواقع بار بار نہیں ملتے۔ کامیابی کا تحفہ ان کےحصے میں آتا ہے جو کسی بھی موقع کوضائع نہیں کرتے لیکن کسی بھی موقع سےفائدہ وہی اٹھا سکتا ہے جو اپنے آپ کو اس قابل بنالے کہ اس موقع کو فائدے کے حصول کیلئے استعمال کر سکے۔ہر بحران کے اندر مواقع موجود ہوتے ہیںلیکن ان سے فوائد کے حصول کیلئے رکاوٹ یا کسی پھاٹک کو عبور کرنا ضروری ہوتا ہے۔تقریباً تین دہائیاں قبل ہمارے مرحوم استاداور دوست وسیم کشفی کی شادی کی تقریب کےسلسلے میں شرکت کیلئے نامور شاعرمرحوم احمد فراز تشریف لائے۔ ان کا ایک جملہ آج بھی ذہن میں نقش ہے۔ احمد فراز نے کہا کہ راستے سے پھاٹک کو ہٹاؤ ۔ مرحوم شاعر احمد فراز کا یہ جملہ نشاندہی کرتا ہے کہ بغیر پھاٹک کو ہٹائےزندگی کے سفر کو آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔

آج پاکستان جس دوراہے پر کھڑا ہے ۔ دوبارہ سنہری موقع ہمارے دروازے پردستک دے رہا ہے ماضی میں ہم کئی سنہری مواقع ضائع کر چکے ہیں ۔ مثال کے طور پر مرحوم جنرل ایوب کے زمانے میں ترقی ہوئی لیکن امیر اور غریب کے درمیان تفاوت میں اضافہ ہوا ۔ ان کا دور حکومت آمریت کا دور تھا اور ملک دولخت ہو گیا۔

بھٹوصاحب کے زمانے میں اصلاحات ہوئیں لیکن سوشلزم کے نعرے اور کچھ دیگر اقدامات کے نتیجے میں سرمایہ دار خائف ہو گئے۔ آمر جنرل ضیا الحق کے دور میں افغان جنگ کے نتیجے میں بیرونی امداد ملی تو مہنگائی زیادہ نہیں تھی ۔ اس کے بعد نوے کی دہائی میں سیاسی انتشار عروج پر تھا اور امریکہ کی طرف سے انتقامی پابندیاں ایک نئے پھاٹک کی طرح ہمارے لیے مشکلات پیدا کرنے کا سبب بنتی رہیں۔

مرحوم جنرل (ر) پرویز مشرف کے زمانے میں امریکہ اورمغربی ممالک نے آئی ایم ایف اور پیرس کلب کے قرضوں کی ری شیڈولنگ کر کے ایک نیا موقع پاکستان کیلئے پیدا کیا لیکن بحیثیت ملک و قوم یہ سنہری موقع بھی ضائع ہوگیا کیونکہ وہ اصلاحات جو نا گزیر تھیں ہم وہ کرنے میں ناکام رہے۔

پاکستان ایک بار پھر نادر موقع کے دوراہے پر کھڑاہے۔جسکے اندر فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر اور وزیر اعظم شہباز شریف نہ صرف ایک صفحے پر متحد نظر آتے ہیں بلکہ ان کے درمیان کوئی انا حائل نہیں ہے ۔ملک کی عسکری اور سیاسی قیادت ایک پیج پر ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بہت پرجوش ہیں کہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کریں۔ چین کے ساتھ سی پیک حتمی شکل اختیار کر چکا ہے ۔ پاکستان اورسعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ ہوچکا ہے۔

آئی ایم ایف کا پروگرام مجموعی طور پر ٹریک پر ہے حالانکہ پاکستان کو ایڈجسٹمنٹ کرنا پڑے گی۔ایک دفعہ پھر پاکستان کیلئے سنہری موقع ہے ۔ ضروری ہے کہ مشکل فیصلے کر لیے جائیں۔پاکستان کے اندر ایک ایمر جنسی ڈکلیئر کرنے کی ضرورت ہے جسکے اندر تمام بیورو کریٹ ، صنعتکار اور ہر شخص کو اپنا حصہ ڈالنا ہو گا کہ کیسے برآمدات کو بڑھانا ہے۔اس میں سب سے اہم عنصر یہ ہے کہ کاروبار کیلئے اخراجات کو کیسے کم کرنا ہے ۔ بجلی اور گیس کے ساتھ ساتھ ٹیکس کے نظام میں ایکسپورٹرز کیلئے آسانیاں پیدا کی جائیں لیکن یہ سہولت ان برآمد کنندگان کیلئے ہو جو پہلے سال کے مقابلے میں برآمدات میں اضافہ کرسکیں ۔ ہر صورت میں ایکسپورٹ کا ہدف 50, 60 ارب ڈالر ناگزیر سمجھا جائے۔

انتہائی لازم امر یہ ہے کہ اخراجات میں کمی کیلئے حکومت کی بیورو کریسی کا حجم کم کیا جائے۔ ایسے کئی سرکاری ادارے جو خزانے پر بوجھ ہیں ان کو نجی اداروں کےحوالے کیا جائے اور ان اقدامات کےحوالے سےکوئی دباؤ برداشت نہ کیا جائے۔ ٹیکس کے نظام میں اصلاحات کی جائیں ٹیکس دہندگان کے اوپر بھاری بوجھ کو کم کیا جائے اور اس کے اندر کمی کر کے ان شخصیات یا شعبوں پر ٹیکس کا بوجھ لادا جائے جو ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں یا اپنی آمدنی کو چھپا کر ٹیکس چوری میں ملوث ہیں۔

ہم اس وقت’ ابھی نہیں یا کبھی نہیں‘ کے دوراہے پر کھڑے ہیں ۔ آج ایک بار دوبارہ سنہری موقع موجود ہے آج اس پھاٹک کو عبور کرنا ہے۔ اگر ایکسپورٹ ایمرجنسی نافذ کر دی جائے تو پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 50ارب ڈالر تک پہنچ سکتے ہیں لیکن اگر درآمدات میں اضافہ اور برآمدات کے ساتھ ڈالر کمانے اور لانے کی صلاحیت میں اضافہ نہ ہوا تو پاکستان ایک بار دوبارہ آئی ایم ایف کے دروازے پر 2028ء یا 2029ءمیں 27ویں دفعہ دستک دینے پر مجبور ہوگا۔ تاہم لازم ہے کہ ہر صورت قوم اس پھاٹک کو عبور کرے۔

تازہ ترین