• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ ڈی پی اوصاحبان ہیں۔کہیں بھی دوکیمروں کی کچہری لگاتے ہیں اور ہول سیل ریٹ پر انصاف کی فراہمی شروع کردیتے ہیں۔رفتار دیکھنے والی ہوتی ہے۔سائل کا مسئلہ ابھی آدھے میں ہوتا ہے کہ برابر میں کھڑے ایس ایچ او کی سرزنش شروع ہوجاتی ہے۔ہاں بھئی یہ کیس تمہارے پاس ہے؟شرم نہیں آتی تمہیں؟ ضمیر مرگیا ہے تمہارا؟ ایس ایچ او نے وضاحت کیلئے ابھی ہونٹ ہلائے ہی ہوتے ہیں کہ غریب معطل ہوجاتا ہے۔پنڈال میں بیٹھے ہوئے لوگ تالیاں پیٹنا شروع کر دیتے ہیں۔انصاف پرنہیں،یہ تالیاں کسی کی تذلیل سے کلیجے میں پڑنے والی ٹھنڈ پر پیٹی جارہی ہوتی ہیں۔

انکے لچھن ایکشن فلموں والے ہوتے ہیں۔رات کو دبنگ دیکھ کرسوجائیں توصبح چلبل پانڈے کے اسٹائل میں گاڑی سے اتر رہے ہوتے ہیں۔کبھی انیل کپور کی طرح ایک دن والا وزیر اعظم بن کر گلیوں میں نکل جاتے ہیں۔انہیں سوشل میڈیا کانٹینٹ کیلئے ولن چاہیے ہوتے ہیں۔فائلوں میں نہ ملیں تو بازاروں میں ڈھونڈنے نکل جاتے ہیں۔وہاں بھی نہ ملیں تو دور کسی گاؤں میں کیمرے گاڑ دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا ٹیم اشارہ کردے تو صاحب فورا سلجوقی سلطنت کے کسی قاضی کا کردار اوڑھ لیتے ہیں۔جب تک سوشل میڈیا ٹیم مطمئن نہ ہوجائے برخاستگیوں اور برہمیوں کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ کانٹینٹ ملتے ہی کچہری برخاست ہوجاتی ہے اور صاحب ٹھنڈا پانی پی کر کیریکٹر سے باہر آجاتے ہیں۔

ایک رگ ان میں واعظوں والی بھی ہے۔یہ رگ پھڑک جائے تو پوڈکاسٹ میں بیٹھ جاتے ہیں۔تھانہ کلچر پر ذرا بھی بات نہیں کرتے۔ڈیل کارنیگی بن کر کامیابی کے دس اصول بتاتے ہیں۔کبھی تلقین شاہ بن کردین سے دوری کو جرائم کی وجہ بتاتے ہیں۔ پولیسنگ سے زیادہ مورل پولیسنگ کرتے ہیں۔او جی ٹک ٹاک نے بچوں کو بگاڑ دیا ہے۔پلٹ کرکوئی نہیں پوچھتا کہ آپ جیسے نوشیروان عادل بھی تھانوں کی بجائے ٹک ٹاک پر کیوں پائے جارہے ہیں۔ اس ہیروگیری کی شکایت کسی ذہین افسر سے کی جاسکتی تھی مگر وہ نیفوں میں الجھے ہوئے ہیں۔پہلے پولیس مقابلے ہوتے تھے تو کھیتوں میں گولیاں چلتی تھیں، اب نیفوں میں چل رہی ہیں۔خدا کی کرنی یہ ہے کہ ہر گولی خود سے چل کر ٹھیک نشانے پر بیٹھ رہی ہے۔جیسے ہی خبر آتی ہے کہ ملزم کی پستول اپنے ہی نیفے میں چل گئی ہے تو خلقت جم کر تالیاں پیٹنا شروع کردیتی ہے۔یہاں بھی تسلی اس بات کی نہیں ہوتی کہ کسی کو انصاف مل گیا ہے۔تسلی اس بات کی ہوتی ہے کہ کسی کا نیفہ لال ہوگیا ہے۔

بچپن میں ہمیں کچھ کہانیاں سنائی اور پڑھائی جاتی ہیں۔اکثر کہانیوں میں ایک کردار ہوتا ہے جو برائیوں سے لڑتاہے۔ہمارے ساتھ ساتھ یہ کردار بھی بڑا ہوتا رہتاہے۔وقت آتا ہے جب یہ خیالی کردار ہمیں حقیقی روپ میں بھی چاہیے ہوتا ہے۔ کراچی کے ایس پی چوہدری اسلم آپکو یاد ہیں؟ لمبا قد،چوڑی چھاتی،بکھرے بال،گھنی مونچیں،کھلا گریبان،وحشی آنکھیں۔پستول لیکر ایسے نکلتے تھے جیسے دس مار دیے ہوں گیارہویں کی تلاش ہو۔یہ چہرہ بہت مقبول ہوا، کیونکہ یہ ذہنوں میں موجود ہیرو کاحقیقی چہرہ تھا۔خیالی کہانیوں کو سچ کرنے والا ایسا چہرہ دیومالائی کردار بن جاتا ہے۔یہ کردار آئین قانون اور قاعدے ضابطے سے بڑا ہوتا ہے۔اس کردار پر سوال اٹھانے والا کھڑے کھڑے ولن بن جاتا ہے۔تھڑے پر بیٹھ کرلوگ اس کردار کے گرد کہانیاں بُنتے ہیں۔ان کہانیوں کوجھٹلانے والوں کا لوگ منہ نوچ لیتے ہیں۔

اس بات پر نہیں کہ انکی کہانی جھٹلائی جارہی ہے۔اس بات پر کہ انکا مزا خراب کیا جارہا ہے۔یہ سن کر بھی لوگوں کو مزا ہی تو آتا ہے کہ چینی حکومت نے ڈیڑھ دو سو کرپٹ سیاستدانوں کو لٹکاکر ترقی کی ہے۔لوگ ایسی کہانیوں کی حقیقت جانتے ہیں مگر یقین نہیں کرنا چاہتے۔وہ اُس خیالی پھانسی گھاٹ میں ہی رہنا چاہتے ہیں جہاں نامعلوم سیاست دانوں کو لٹکا ہوا دیکھ کر بہت مزا آتا ہے۔

انہی مزوں کے چکرمیں سلطانہ ڈاکو کی داستان کو ہم نے قریب قریب لوک داستانوں میں شامل کردیا ہے۔کہیں کہیں تو اسکا ذکر ہم بھگت سنگھ اور رام پرساد بسمل کے ساتھ بھی کر دیتے ہیں۔بات یہ ہے کہ خوشحال لوگ ہماری کہانیوں میں مستقل ولن ہیں۔یہ سن کر کلیجے میں ٹھنڈ پڑجاتی ہے کہ رابن ہڈ امیروں سے لوٹتا تھا غریبوں میں بانٹتا تھا۔رابن ہڈ جیسوں کی کہانی میں مزا اس بات کا نہیں ہوتا کہ وہ غریبوں میں بانٹتے تھے۔سارا مزا اس بات کاہوتا ہے کہ وہ امیروں سے لوٹتے تھے۔یہ لت اتنی بری ہے کہ ہم پھر سیاست میں بھی مولاجٹ جیسا کردار ڈھونڈنے نکل جاتے ہیں۔ایسا کردار جو ترقیاتی کام کرے نہ کرے، ولن کو لٹکانے والی بات کرکے مزے ضرور کرا دیا کرے۔

پولیس کے کچھ افسر ان دنوں پھر دیومالائی کردار بنے ہوئے ہیں۔اب کی بار والے افسر بلاشبہ زیادہ ذہین ہیں۔سوشل میڈیا پر بھی شارپ شوٹر تعینات کردیے ہیں۔وہ سوال اٹھانے والوں کو مجرموں کیساتھ گن رہے ہیں۔ذہانت کے نمبر پورے ہیں، مگر غیر قانونی انصاف کا کیا کریں؟غیرقانونی انصاف سے ہربار سسپنس اسٹوریاں لکھنے والوں کے ہاتھ تو بہت کچھ آجاتا ہے،عوام کے ہاتھ پوٹا کلیجی کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔بھاگلپور میں جنسی جرائم کو روکنے کیلئے پولیس نے ملزموں کی آنکھیں پھوڑنا شروع کردی تھیں۔لوگوں کو اجے دیوگن کی گنگا جل مووی کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔دایا نائیک نے ریکارڈ توڑ انکاؤنٹر کیے تھے۔جنتا کو نانا پاٹیکر کی ابتک چھپن مووی کے علاوہ کیا ملا؟ ایس پی چوہدری اسلم بھی گئے تو کل ملا کے ہمیں ایک بائیو پک ملی۔پنجاب کے ایک آئی جی ریٹائر ہوئے توہمیں ڈھیر سارے مضامین اور دو کتابیں مل گئیں۔

کراچی کے ایک تحقیقاتی افسر نے چار پانچ ناول تو دیدیے ہیں دو چار اور دیدیں گے۔اب والوں کا معاملہ کچھ نقدہے۔یہاں گولی چلتی ہے وہاں اسٹوری چل جاتی ہے۔رہ جانیوالی ہوشربا داستانیں ریٹائرمنٹ کے بعد چھپ جائیں گی۔ پھر کیا ہوگا؟روح کو تڑپانے اور قلب کو گرمانے والے نئے ہیرو آجائینگے۔وہ بتائینگے کہ حالات پہلے سے زیادہ خراب ہوگئے ہیں۔ نئے آپریشن ہوں گے،نئی کہانیاں اور نئی فلمیں چلیں گی۔لوگوں کو پائیدار انصاف ملے نہ ملے،کلیجے کو ٹھنڈ برابر ملتی رہے گی۔

تازہ ترین