ونڈسر پارک اچھرہ کے گھر میں میری زندگی کی ایک ہولناک رات گزری۔ابا جی اپنی بیٹیوں اور بہنوں سے ملنے گاہے گاہے جایا کرتے تھے۔اور شام کی اذان سے پہلے واپس گھرآ جایا کرتے تھے۔اگر میں گھر پر ہوتا تو میں انہیں موٹر سائیکل پر لے جاتا ورنہ وہ بس یا ویگن پر چلے جاتے۔ایک رات میں گھر پر آیا تو ابا جی گھر پر نہیں تھے۔حالانکہ وہ شاموں شام گھر واپس آ جایا کرتے تھے۔میں نے باری باری اپنی بہنوں اور پھوپھی کو فون کیا انہوں نے بتایا کہ وہ ادھر نہیں آئے۔اب عشاء ہو چکی تھی اور ابا جی ابھی تک نہیں آئے تھے تب میری پریشانی میں اضافہ ہو گیا۔میں نے مختلف ہسپتالوں میں فون کیا مگر کہیں سے ان کی اطلاع نہ ملی۔تب میں نے تھانوں سے بھی پتہ کیا کہ کوئی معمر شخص زخمی یا مردہ حالت میں آپ کے سپردگی میںتو نہیں دیا گیا مگر کسی سے اثبات میں جواب نہ ملا ۔اب میری پریشانی آخری حد کو چھو رہی تھی۔تب میں نے فیصلہ کیا کہ میو ہسپتال کے مردہ خانے سے معلومات حاصل کرتا ہوں۔اس وقت رات کے بارہ بج رہے تھے میں وہاں پہنچا تو سفید داڑھی والے ایک بزرگ نے ہاتھ میں لالٹین پکڑے میرے آگے آگے چلناشروع کیا ۔کچھ لمحوں بعد ایک بڑا گیٹ سامنے نظر آیا۔بزرگ نے وہ گیٹ کھولا اور میں نے دیکھا کہ کچھ لاشیں زمین پر پڑی تھیں۔اور کچھ کو دیوار کے ساتھ کھڑا کیا گیا تھا۔میں نے دیوار پر نظر ڈالی مگر ابا جی وہاں نظر نہ آئے پھر فرش پر لیٹے انسانوں کو غور سے دیکھا ان میں سے ایک بزرگ پر مجھے شک گزرا مگر جب غور سے دیکھا تو مجھے غلطی لگی تھی۔ابا جی کے ماتھے پر ایک موکا تھا جو اس لاش کے چہرے پر نظر نہیں آیا پھر میں شکستہ دل اپنے گھر کو لوٹ آیا ۔وہی سیڑھیاں جو میں دوڑ کر چڑھا کرتا تھا اب مجھے پہاڑ کی چوٹی سر کرنے کے برابر لگ رہی تھیں۔میری اہلیہ ابھی تک جاگ رہی تھی میں نے اسے بتایا کہ ابا جی کا کچھ پتہ نہیں چلا رات بھاری قدموں سے سفر طے کر رہی تھی۔اہلیہ نے کہا آپ تھوڑی دیر کیلئے سو جائیں مگر میں کیسے سو سکتا تھا۔میں اس کے بارے میں سوچ رہا تھا جس نے مجھے یہاں تک پہنچایا۔اور بہت کم آمدنی کے باوجود حتی المقدور میری خواہشات پوری کیں۔مجھے اگر گھر پہنچنے میں دیر ہو جاتی تو گھر سے باہر کھڑے ہو جاتے۔اور اس وقت تک کھڑے رہتے جب تک میں انہیں نظر نہ آ تا وہ ایک عالم دین ہونے کے باوجود اپنی اس خواہش سے دستبردار ہوگئے کہ جامعہ اشرفیہ کی بجائے میں کالج میں داخلہ لے لوں۔مجھ سے بے پناہ محبت کے باوجود انہوں نے میری یہ خواہش پوری ہونے دی کہ میں دوستوں کے ساتھ کچھ عرصہ کیلئے امریکہ چلا جاؤں۔وہ میرے چہرے پر داڑھی دیکھنے کے خواہش مند تھے مگر میں انہیں کہتا چھ مہینے سال بعد رکھ لوں گا۔میرا عزیز ترین دوست عارف حبیب کبھی میری طرف آتا اس کی داڑھی دیکھ کر بہت خوش ہوتے اور مجھے کہتے دیکھو عارف داڑھی کے ساتھ کس قدر خوبصورت لگ رہا ہے۔تو میں ابا جی کے انتظار میں سو کیسے سکتا تھا حتیٰ کہ صبح ہو گئی۔میں نے سیڑھیوں پر کسی کے قدموں کی چاپ سنی یہ چاپ ابا جی کے قدموں کی تھی میں آگے بڑھ کر روتے ہوئے ابا جی سے لپٹ گیا۔جب میرا رونا ختم ہوا تو ابا جی نے کہا’’مجھے پتہ نہیں تھا تم مجھ سے اتنی محبت کرتے ہو‘‘وہ میری سب سے بڑی بہن کے گھر گئے تھے۔بارش شروع ہو گئی اور بجلی بھی چلی گئی اور اس علاقے کے سب فون بھی ڈیڈ ہو گئے اور یوں فون پر بھی میری بہن سے بات نہیں ہو سکی تھی یہ بھی ان دنوں کی بات ہے جب میں لاہور میں ونڈسر پارک اچھرہ کے ایک گھر کے بالائی حصے میں رہتا تھا۔وہاں بازار میں ایک آوارہ اور مشکوک نوجوان اکثر نظر آتا تھا دو ایک دفعہ صبح نوائے وقت جاتے ہوئے میری جیب سے بیس روپے کم نظر آئے اس دور میں یہ رقم حقیر نہیں سمجھی جاتی تھی۔میرا دھیان اس مشکوک نوجوان کی طرف گیا اصل میں اس کوٹھی کے برابر کا پلاٹ خالی تھا اور ہمارے گھر کی دیوار اتنی اونچی نہیں تھی کہ کوئی جرائم پیشہ شخص اسے پھلانگ کر اندر نہ آسکتا ۔برابر میں سیڑھیاں تھیں اور یوں پوری سہولت سے ہمارے پورشن میں داخل ہوا جا سکتا تھا۔ایک دفعہ گھر میں سب اہلِ خانہ سو رہے تھےکہ اچانک کھڑاک سا ہوا میں نے دیکھا تو وہی جرائم پیشہ شخص ہمارے صحن میں تھا۔پیشتر اس کے کہ وہ کوئی کارروائی کرتا میں نے اٹھ کر اپنے کمرے کے دروازے اندر سے بند کر دیئے میں باہر نکل کر اسے پکڑنا چاہتا تھا مگر اس دفعہ بھی اہلیہ نے مجھے صحن میں نہ جانے دیا کہ اس کے پاس کوئی چاقو یا پستول ہو گا اور آپ خالی ہاتھ ہیں۔چنانچہ میں نے با آواز بلند کہا کون ہے۔اس کے ساتھ ہی وہ دوڑ کر سیڑھیوں کی طرف گیا اور پھر نیچے اتر کر دیوار پھلانگی اور پھر باہر کے خالی پلاٹ میں کود گیا۔میں نے کھڑکی میں سے چور چور کی آواز بلند آہنگ میں دی جس پر اس حرام خور نے ایک پتھر کھڑکی کی طرف اچھالا کیا زبردست نشانہ تھا وہ پتھر سیدھا کھڑکی کو لگا۔اور ایک انچ کے فاصلے سے میں بچ گیا۔اور آخر میں اپنی ایک غزل۔
چیتھڑوں میں یہ لپٹا ہوا کون ہے
یہ جو اوڑھے ہوئے ہے قبا کون ہے
میں سزاوارِ تعزیر تو ہوں مگر
جو مجھے دے رہا ہے سزا کون ہے
سب طرف دار ہیں کون بتلائے گا
راہزن کون ہے ،رہنما کون ہے
ایک شک کی نظر منظروں کی طرف
یہ دِیا کون ہے، یہ ہوا کون ہے
کیا پتہ ان صداؤں کے گرداب میں
کس کی آواز میں بولتا کون ہے
ایک آواز چاروں طرف دربدر
ہم ہیں خلق خدا تو خدا کون ہے
کس کی آنکھوں میں نیندوں کی پہنائیاں
رات سے رات تک جاگتا کون ہے
کون مڑ کے مجھے دیکھتا بھی نہیں
اور مسلسل صدا دے رہا کون ہے
اب تو دونوں کی آنکھوں میں شرمندگی
بات ہو گی کبھی بے وفا کون ہے
اک صدا دے کے میں لوٹ آیا عطا
اس نے اندر سے جب یہ کہا کون ہے