ایک علامہ صاحب ہیں۔ لاہور اور گجرات کے دو بابوں کیساتھ ملکر انہوں نے ایک تنظیم بنائی تھی۔ گستاخوں کا گھیراؤ کرنا اس تنظیم کا بنیادی مقصد بتایا گیا تھا۔کچھ برس پہلے ایک طالبعلم کے کہنے پر بابوں نے ایک پروفیسر کو گستاخ قرار دیدیا۔ مقامی تھانے کا گھیراؤ کرکے انتظامیہ سے کہا، پروفیسر کو گرفتار کرو ورنہ انجام برا ہوگا۔ دوڑیں لگ گئیں۔ پروفیسر نے کہا، میری بات کا غلط مطلب لیا گیا ہے۔مجھے وضاحت کا ایک موقع دیا جائے۔ علامہ نے کہا، گستاخ کو وضاحت کا موقع نہیں دیا جاتا سزائے موت دی جاتی ہے۔ پروفیسر کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔ کچھ برس بعد اسی جیل کا پھاٹک آدھی رات کو اٹھایا گیا۔ پگڑی اورسفید قبا میں ایک ہستی کو لایا گیا۔پوچھنے والے نے پوچھا، یہ کون ہیں انہیں ہتھکڑیاں کیوں لگی ہیں؟ بتانے والے نے بتایا، یہ علامہ ہیں انہیں گستاخی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ ایک مفتی صاحب ہیں۔جذبات سے بھرپور ایک خطاب میں انہوں نے کہا،میں پوری ذمہ داری کیساتھ فتویٰ دیتا ہوں کہ کسی کو گستاخی کرتا ہوا دیکھو تو عدالتی جھنجھٹ میں مت پڑو۔ گستاخ کو وہیں موت کے گھاٹ اتار دو۔وہ مفتی صاحب پچھلے برس کینیڈا کے تبلیغی دورے پرچلے گئے۔ایک مسجد میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ایک رائے دی جو لوگوں کو ناگوار گزری۔اتنی ناگوار گزری کہ انکے خلاف گستاخی کا پورا مقدمہ کھڑا کردیا۔ اگلے دن ویڈیو پیغام جاری کرکے انہوں نے اپنے کہے کی وضاحت کی۔ایک مولانا نے انکی وضاحت ’نامنظور‘ کر دی۔ حالات یہ ہوگئے کہ مفتی صاحب کینیڈا میں پھنس کر رہ گئے۔ وہاں ویزہ ختم ہو رہا تھا یہاں لوگ موت کا گھاٹ فائنل کر رہے تھے۔ لوگ عدالت والے جھنجھٹ میں پڑنا نہیں چاہ رہے تھے۔ بمشکل تمام واپسی ہوئی تو مفتی صاحب کو بم پروف گاڑی میں بٹھا کر گھر لے جایا گیا۔ کچھ مہینے ہی گزرے ہونگے کہ ’نا منظور‘ کرنیوالے مولانا کی اپنی ایک ویڈیو وائرل ہوگئی۔وہ فون پر ایک مذہبی سیاسی جماعت کے سربراہ سے گپ شپ کر رہے تھے۔ گفتگو کے دوران انہوں نے وزیراعلیٰ بلوچستان کو کسی برگزیدہ ہستی سے تشبیہ دیدی۔لوگوں کو یہ تشبیہ اتنی ناگوار لگی کہ انکے خلاف گستاخی کا پورا مقدمہ کھڑا کردیا۔ ایف آئی اے کے دروازے بجنے لگے گرفتاری کے مطالبے ہونے لگے۔ مولانا نے ایک وائس نوٹ کے ذریعے وضاحتی پیغام جاری کیا۔ ایک کالعدم تنظیم نے انکی وضاحت کو مسترد کردیا۔کچھ ماہ بعد اسی کالعدم تنظیم کے ایک چہیتے خطیب کو سرگودھا سے گرفتار کرلیا گیا۔ پوچھنے والے نے پوچھا، انہیں کیوں گرفتار کیا گیا ہے؟ بتانے والے نے بتایا، فیصل آباد کے ایک تھانے میں ان کیخلاف ایف آئی آر کٹی ہے۔ انہیں گستاخی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
پنڈی اسلام آباد اور اسکے اطراف میں ایسے ہزاروں بچے ہیں جو مذہبی سیاسی جماعتوں وتنظیموں سے وابستہ ہیں۔ انکی ایک آواز پر یہ بینر اٹھاتے ہیں اورسر تن سے جدا والے نعروں کیساتھ سڑکوں پرنکل جاتے ہیں۔میلاد ہویا غزہ کے مظلوموں کیلئے چندہ مہم ہو، یہ آگے آگے ہوتے ہیں۔ 170 سے زائد ایسے بچے گستاخی کے کیس میں اڈیالہ پہنچا دیئے گئے ہیں۔ ایک بچے نے تو گرفتاری سے پہلے والا جمعہ بھی ایک مشہور مفتی صاحب کی مسجد میں ادا کیا تھا۔ یہ بچہ سولہ کلو میٹر دور سے اپنے ممدوح کا لہو گرما دینے والا خطبہ سننے آیا تھا۔فرانس کیخلاف مظاہروں میں استعمال کیے گئے اسکے پلے کارڈز اب بھی گھر میں پڑے ہیں۔ ہر بچہ ایک کہانی ہے۔اسپیشل برانچ اور NCHR کی رپورٹیں کہتی ہیں کہ ایک منظم گروہ نے قانون اور اختیار کا ناجائز استعمال کرکے ان بچوں کو ٹریپ کیا ہے۔بچوں کے والدین نے عدالت سے ایک غیرجانبدار تحقیقاتی کمیشن بنانیکی درخواست کردی۔آٹھ ماہ کی سماعت کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ نے کمیشن بنانے کا حکم دیدیا۔عدالتی حکم کو انہی جماعتوں نے مسترد کر دیا جن کیلئے ان بچوں نے خون پسینہ بہایا تھا۔ حیران کن طور پر حال ہی میں گرفتار ہونے والےایک ’مذہبی یوٹیوبر ‘نے بھی فیصلے کو غلط قرار دیدیا۔ فرمایا، گستاخوں کیخلاف درج مقدمات حقیقت پر مبنی ہیں۔ کیس لڑنے والے وکلا اور فیصلہ دینے والے جج کسی ایجنڈے پر تھے۔ یہ بات سنکر بچے بہت اداس ہوگئے۔مذکورہ ’مذہبی یوٹیوبر‘ بھی بہتی گنگا میں ہی ہاتھ دھوئیں گے تو ہمارا کیا بنے گا۔اسی سوچ میں تھے کہ اچانک اڈیالہ میں ہائی الرٹ جاری ہوگیا۔پھاٹک اٹھاکر جانی پہچانی سی ایک شخصیت کو جیل میں لایا گیا۔پوچھنے والے نے پوچھا،یہ کون ہیں اور ہتھکڑیاں کیوں لگی ہیں؟ بتانے والے نے بتایا، یہ ’مذہبی یوٹیوبر‘ ہیں انہیں گستاخی کے الزام میں گرفتار کیاگیا ہے۔
اسپیشل برانچ اور NCHR کی رپورٹوں میں جس منظم گروہ کا نام لیا گیا تھا،اس گروہ سے جلالی قسم کے ایک پیر کا بیٹا بھی وابستہ ہے۔ گستاخی کے الزام میں قید کسی بچے کیلئے ضمانت کی درخواست دائر ہوجائے تو پیر صاحب کا بیٹا بچوں اور انکے وکلا کیخلاف ایک زوردار مہم شروع کردیتا ہے۔پیر صاحب کا بیٹا ایسی ہی ایک مہم میں مصروف تھا کہ پیچھے اڈیالہ میں ایک بار پھر ہائی الرٹ جاری ہو گیا۔ جیل کا پھاٹک اٹھاکر 82سال کی ایک سفید ریش ہستی کو زندان میں لایا گیا۔ پوچھنے والے نے پوچھا، یہ کون ہیں انہیں ہتھکڑی کیوں لگی ہے۔ بتانے والے نے بتایا، یہ پیرصاحب ہیں انہیں گستاخی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
اڈیالہ میں قید سب سے کم عمر گستاخ 11سال کا ایک بچہ ہے۔جی ہاں، گیارہ سال کا ایک ذہین بچہ۔ یقین نہیں آرہا نا؟مجھے بھی نہیں آرہا تھا۔پھر میں نے اڈیالہ جاکر خود دیکھا۔ یہ بچہ ایک دن بہت اداس تھا۔اسکی بہن کی شادی تھی اور یہ یہاں جیل میں تھا۔ سارے 'گستاخ ملکر ننھے گستاخ کو تسلی دے رہے تھے کہ ایک بار پھرجیل کا پھاٹک اٹھا دیا گیا۔داڑھی پگڑی والی ایک نورانی سی ہستی کو جیل لایا گیا۔ پوچھنے والے نے پوچھا،یہ کون ہیں انہیں ہتھکڑیاں کیوں لگی ہیں؟ بتانے والے نے بتایا،انہیں گستاخی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ دوسرے کونے سے پیرصاحب کی آواز آئی، یہ وہی مولوی صاحب ہیں جنکی درخواست پرمجھے گستاخی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔