جیو نیوز کے مقبول پروگرام ’آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ‘ کے اینکر شاہ زیب خانزادہ نے معروف مزاحیہ شو ’ہنسنا منع ہے‘ میں شرکت کر کے اپنی زندگی کے دلچسپ قصے سنادیے۔
انہوں نے تھائی لینڈ جاتے ہوئے پیش آنے والا یادگار قصہ سنایا اور بتایا کہ میں اسلام آباد ایئرپورٹ سے تھائی لینڈ جارہا تھا تو سیکیورٹی کے عملے نے مجھے روک لیا تھا۔
اینکر نے کہا کہ سیکیورٹی کے عملے نے مجھے روک کر میری تلاشی لی اور سوال کیا کہ میں اتنا باہر کیوں آتا جاتا رہتا ہوں۔
شاہ زیب خانزادہ نے بتایا کہ اس وقت میں اتنا باہر نہیں جاتا تھا، میرے پاسپورٹ پر اسٹیمپ بھی نہیں تھی، اس کے باوجود سیکیورٹی والا بضد تھا کہ میں بیرون ملک سفر کرتا رہتا ہوں جس کی وجہ سے اسے مجھ پر شک ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جب 10 سے 15 منٹ گزر گئے، اسی بحث میں تو پیچھے سے کسی نے بتایا کہ میں ٹی وی پر آتا ہوں جس کے بعد سیکیورٹی والے نے مجھ سے معذرت کی اور مجھے جانے دیا۔
شو کے دوران اینکر نے انکشاف کیا کہ بچپن میں غلط انگریزی بولنے پر اسکول میں ٹیچر سے پٹائی لگی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ میں نے اپنی کلاس میں کسی بات کے دوران ’لوجک‘ کہہ دیا تھا تو میری ٹیچر نے مجھے مارا اور کہا کہ ’لاجک‘ ہوتا ہے۔
شاہ زیب خانزادہ نے مزید کہا کہ میں جس اسکول میں پڑھتا تھا طلبا کو مارنا وہاں کے کلچر میں شامل تھا۔
انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ مجھے سوال پوچھنے پر بھی مار پڑی، جس پر میری والدہ اسکول پہنچ گئی تھیں، جس سے اسکول میں پٹائی کا کلچر بدل گیا۔
انہوں نے بتایا کہ میں نے ٹیچر سے ایک سوال پوچھا تھا تو انہوں نے مجھے مار دیا، اس وقت مجھے مار کھانے کی عادت نہیں ہوئی تھی تو مار کھانے کے بعد بہت شرمندگی ہو رہی تھی۔ میں اسکول سے گھر چلا گیا، گھر گیا تو والدہ کو پتہ چل گیا کہ مجھے مار پڑی ہے، یہ جان کر وہ اسکول آگئیں اور ہیڈ ماسٹر کے کمرے میں جاکر بیٹھ گئیں کہ میرے بچے کو مارا گیا ہے، اسے کیوں مارا مجھے بتائیں۔
شاہ زیب خانزادہ نے بتایا کہ جب ٹیچر ہیڈ ماسٹر کے کمرے میں آئے تو انہوں نے بتایا کہ میں بہت سوال پوچھ رہا تھا اس لیے مار دیا، اس پر والدہ نے کہا کہ اس نے غلط جواب نہیں دیا تھا جو آپ اسے مارتے اس نے سوال پوچھا تھا آپ کا کام تھا جواب دینا مارنا نہیں۔ اس کے بعد چند دنوں تک باقی بچوں کو کسی نہ کسی بات پر مار پڑتی رہی لیکن مجھے نہیں، جس پر دیگر طلبا کے والدین بھی شکایت لے کر اسکول آنے لگے۔ اس سے یہ ہوا کہ پٹائی تو بند نہیں ہوئی لیکن کبھی سوال پوچھنے پر پٹائی نہیں ہوئی۔
میزبان تابش ہاشمی نے شاہ زیب خانزادہ کا قصہ سننے کے بعد بتایا کہ 2011 تک ملک بھر کے اسکولوں میں پٹائی کا کلچر بہت عام تھا۔ ہمارے قانون میں بھی شامل تھا کہ اگر ضرورت ہو تو بچوں کو ہلکا پھلکا مار سکتے ہیں، لیکن 2011 کے بعد گلوکار و سماجی کارکن شہزاد رائے اور جیو نے اس کے خلاف آواز اُٹھائی، بعدازاں قانون میں ترمیم کی گئی۔ اب بچوں کو قطعاً نہیں مارا جاسکتا۔