تحریر :مولانا محمد امجد خان ڈپٹی سیکر ٹر ی جنرل جے یو آئی پاکستان مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود نور اللہ مرقدہ نے علمی میدان میں تاریخی کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ مدرسے کی چٹائی پر بیٹھ کر دین کی اشاعت کے لیے علماء کی صفیں بنانے والی شخصیت نے قومی اسمبلی میں ایسے کارنامے سرانجام دیئے کہ جو یقینی طور پر پارلیمان کے لئے فخر ھے اور ایک تاریخ بھی ہے۔ حضرت مولانا مفتی محمود نے دینی مدرسے کے ماحول میں جہاں علمی نکات علماء کو دیئے حدیث کی شرح بیان فرمائی اور دارلافتاء میں بیٹھ کر ہزاروں کی تعداد میں فتوے دیئے وہاں 73 ءکے ائین کے بنوانے میں بھی مولانا مفتی محمود کا ایک تاریخی رول اداکیاہے جسے یقینی طور پر پارلیمان کے ریکارڈ پر بخوبی دیکھا اور پڑھا بھی جا سکتا ہے۔مولانا محمود دین اسلام کی تشریخ کرتے وقت دلائل کے انبار لگادیتے کہ سننے والاہر شخص متاثر ہو تا دین اسلام کی بات بلا خوف وخطر ہ ا ور بلا مصلحت بیان فر ماتے ۔ حضرت مفتی صاحب; بیک وقت ایک محقق عالم دین ،متبحر استاد ، مدبر سیاستدان،بیدارمغزعالم مفتی،حق گوخطیب اور شب زندہ دارعارف باللہ تھے اور یہ القاب ہی نہیں ہیں بلکہ حقیقت ہیں ،علم کا یہ عالم تھا کہ بخاری شریف کی مشکل مباحث کو منٹوں میں حل کرنا آپ کا خاصہ تھا،فخرالسادات ،مجاہد ختم نبوت مولانامحمد انورشاہ کشمیری کے مایہ ناز شاگرد حضرت مولانا محمد یوسف بنوری فرماتے ہیں کہ ایک بار حضرت مفتی صاحب جامعہ بنوری میں تشریف لائے اتفاقا درس بخاری کا پیریڈ تھا ، میں نے حضرت مفتی صاحب سے درخواست کی کہ آج آپ بخاری شریف کا درس دیں ،حضرت مفتی صاحب نے بخاری شریف کھولی اور حدیث شریف کی تشریح کی اور ایسی علمی تقریر فرمائی کہ میں حیران رہ گیا ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے وقت کے ابن حجر عسقلانی تشریف فرما ہیں ، ایسی باتیں مجھے سننے کو ملیں کہ جو اس سے پہلے کبھی نہ سنیں جبکہ یہ بخاری شریف کا ایک مشکل مقام تھا اور دلچسپ بات یہ کہ آپ ایک جلسے سے فارغ ہوکر تشریف لاے تھے تیاری کا موقع بھی نہ مل سکا بس اس واقعہ نے حضرت مفتی صاحب کا علمی مقام جو کہ میری نگاہ میں پہلے کا بلند تھا اور بلند کر دیا جوں حضرت مفتی صاحب کی تقریر بخاری میں اضافہ ہوتا جاتا ساتھ ہی حضرت مفتی صاحب کا قد کاٹھ بھی علمی میدان میں بلند ہوتاجاتا ۔حضرت مولانا منظور احمد صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت مفتی صاحب کو ویسے تو تمام علوم پر عبور تھامگر حدیث اور فقہ پر بھی گہری نظر تھی ،قاسم العلوم ملتان میں انہوں نے تقریبا 25 برس تک بخاری و ترمذی شریف کا درس دیادوران درس پیجیدہ اور مشکل ترین مباحث کو آسان انداز میں پیش فرماتے تھے،ٍ مدبر سیاستدان ہونے کی یہ حیثیت تھی کہ ملک پاکستان جو خالصتا لا الہ الا اللہ محمدرسول اللہ ﷺکی بنیاد پر معرض وجود میں آیا تو سیکولر ذہنیت کے حاملین نے شروع سے ہی آئین میں اپنا ایجنڈا نافذ کرنے کی کوشش کی تو علامہ شبیر احمد عثمانی کے بعد جسں شحضیت نے آئین پاکستان کو اسلامی آئین کے قالب میں ڈھالنے کا کردارادا کیا وہ شخصیت حضرت مفتی صاحب کی ہی تھی،1973 ء کا آئین آپ کی ہی جہود و مساعی کا ثمر ہے جب کہ دیگر اہل علم حضرات آپ کے شانہ بشانہ رہے اوراس آئین نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر چور دروازے کے ذریعے آنے والوں کے سارے راستے بند کردیئے ہیں ،اور پھر نو ماہ سرحد کی وزارت اعلی کے منصب پر فائز رہ کر دنیا کو دکھا دیا کہ ایک عالم دین تم سے بہتر نظام چلانا جانتا ہے،اور درویشی کا یہ عالم ہے کہ وزیراعلی ہونے کے باوجود دال اور ساگ کے ذریعے زندگی گذاری جا رہی ہے حالانکہ چاہتے تو عمدہ قسم کے کھانوں سے دسترخواں سج سکتا تھا لیکن آپ کے سامنے عمرثانی حضرت عمر بن عبدالعزیز کا اسوہ تھا کہ ہزاروں مربع میل کے حکمران ہیں لیکن عید کے دن اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ کچے پیاز سے روٹی کھائی جارہی ہے حضرت مفتی محمود صاحب;231; نے بھی بیت المال کو اپنی ذاتی جاگیر نہ سمجھا بلکہ عوام کا حق سمجھ کر انہی پر لٹایا اور خود اےک پائی تک نہ لی اور فقط تنخواہ پر گذارہ کیا اور پھر وہ تنخواہ بھی آنے والے مہمانوں کی ضیافت پر صرف ہو جاتی اور جب وقت آیا تو وزیر اعلی کے منصب کو اصولوں کی خاطر لات ماردی اور بتادیا حقیقی بادشاہ اللہ کے غلام اور بندے دنیوی مناصب اور عہدوں کے محتاج نہیں ہوتے،آپ بیدار مغز مفتی تھے ، مسئلہ پر بیک وقت گرفت کرنا گویا آپ کی خاص پہچان تھی،1974 قادیانی جماعت کا نمائندہ مرزا ناصر اسلامی لباس کا لبادہ اوڑھ کر اسمبلی میں آیا تو حضرت مفتی محمود نے لگاتار گیارہ دن مرزا ناصر سے جرح کی تو اس جرح نے مرزا ناصر کو تارے دکھائے وہیں ممبران اسمبلی کی آنکھیں کھول دیں اور قادیانی کو کفریہ عقائد سنن پر کانوں کو ہاتھ لگا یا اور علماء کے موَقف کی مکمل تائید کی اور حضرت مفتی صاحب کو زبردست حراج تحسین پیش کیا اسمبلی میں مو جود دیگر علماء کرام کے ساتھ حضرت مفتی صاحب کی ہی یہ مناظرانہ جدوجہد تھی کہ مرزائی غیر مسلم قرار پائے اور 7 ستمبر1974ء پاکستان کی تاریخ میں وہ تاریخ ساز دن کہلایا جب سچے نبی ﷺ کی ختم نبوت کا پرچم قومی اسمبلی میں بھی لہرایا گیا اور حضور ﷺ کے بعد ہر شحض کو جو دعوی نبوت کرے یا اس جھوٹے مدعی نبوت کی تائید کرے اسکو کافر قرار دیا گیا،شب زندہ داری کا یہ عالم تھا کہ سیاست کی پر خارواری اور جاہ و منصب کا رنگ بڑوں بڑوں کو ڈگمگا دیتا ہے لیکن وزیراعلی کی زبان سبحان ربی الاعلیٰ کے ترانے سے ہمیشہ معطر رہی ،دن کو ممبران اسمبلی اور دیگر شخصیات کو نماز کی امامت کروائی تو رات کو تہجد کے وقت مصلے پر آنسو بہاکر اپنے رب کو راضی کیا،ایسے عظیم لوگ مائیں کم ہی جنم دیا کرتی ہیں ،سی ایم ایچ راولپنڈی میں انتہائی نگہداشت کی وارڈ میں داخل ہوئے طبیعت انتہائی ناساز تھی ،ڈاکٹر حضرات نے دل کی کیفیات جانچنے کے لئے جسم کے ساتھ مختلف مشینوں کے کنکشن جوڑ دیئے اور آپ کو اٹھنے بیٹھنے حتی کہ حرکت کرنے سے بھی منع کر دیا عشاء کی نماز کا وقت ہوا تو فرمایا آلات ہٹاءواور ساتھ فرمایا کہ مجھ میں کھڑے ہونے کی سکت ہے اور میں لیٹ کر اشارہ سے نماز پڑھوں یہ ہو نہیں سکتا ۔ آج کل معمولی عذر ڈھونڈاجاتا ہے لیکن ان حضرات کی زندگی کا مقصد اپنے اللہ تعالی کو خوش کرنا جس میں وہ کامیاب ہوئے ۔ایک بار ایک مجلس میں پانی کی طلب ہوئی تو لیٹے ہوئے تھے ضعف و نقاہت کی وجہ سے اٹھ نہیں سکتے تھے حضرات نے عرض کی کہ لیٹ کر بھی پینے کی گنجائش تو موجود ہے تو فورا بیٹھ گئے اور فرمایاپیاس تو اس طرح بھی بجھ سکتی تھی لیکن سنت کا نور مجھے نہ مل سکتا تھا میں اس سے محروم ہو جاتا اب بیٹھ کر پی رہا ہوں اس سے مجھے فائدہ یہ ہوا کہ جہاں میری پیاس بجھ گئی وہیں مجھے سنت کا نور نصیب ہوگیا اللہ تعالی بھی راضی ہوگئے اور رسول خدا ﷺ کی خوشودی بھی نصیب ہوگی۔ چنانچہ اس تقوی و للہیت اور دینی خدمات کا اللہ تعالی نے ثمر یہ دیا کہ علمی مرکز جامعہ بنوریہ میں مسئلہ دین پر گفتگو کرتے ہوئے اپنے پاس بلالیا۔