• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مفکر اسلام مولانا مفتی محمود ؒ – علم و سیاست کا درخشاں مینار

تحریر:قاری محمد عثمان
قوموں کی زندگی میں بعض اوقات ایسے نابغۂ روزگار رجال پیدا ہوتے ہیں جو وقت کے دھارے کو موڑ دیتے ہیں۔ ان کی شخصیت محض ایک فرد کی نہیں ہوتی بلکہ اپنے اندر ایک تحریک، ایک نظریہ اور ایک انقلاب سمیٹے ہوئے ہوتی ہے۔ وہ فکر و نظر کے مینار بھی ہوتے ہیں اور عمل و جدوجہد کے ترجمان بھی۔ برصغیر کی ایسی ہی ایک درخشندہ ہستی، مفکر اسلام، امامِ انقلاب محسنِ ملت حضرت مولانا مفتی محمودؒ ہیں، جن کا نام تاریخ کے سنہری اوراق میں ہمیشہ کے لیے زندہ جاوید ہے۔مفتی محمودؒ نے آغازِ حیات ہی سے علم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔ وہ دارالعلوم دیوبند کے فیض یافتہ تھے مگر ان کی علمی پرواز کسی ایک مکتب یا ادارے کی حدود تک محدود نہ رہی۔ وہ درس و تدریس کے مسند پر بیٹھے تو علمِ قرآن و حدیث کا بحرِ بیکراں نظر آئے، افتاء کے منصب پر فائز ہوئے تو مسائلِ شریعت کے محقق اور فقہ و فتویٰ کے معتبر ماہر ٹھہرے، اور جب منبر پر کھڑے ہوئے تو ان کی خطابت میں ایسا جلال بھی تھا جو دلوں کو جھنجھوڑ دیتا اور ایسا جمال بھی جو سامعین کو اپنے سحر میں لے لیتا۔ان کی شخصیت کا یہ وصف تھا کہ وہ مدرسے کے کمرے میں معلم کی صورت میں چراغ جلانے والے لگتے، منبر پر خطیب کی طرح بجلی بن کر گرتے، اور جب عوام میں بیٹھتے تو درویشانہ سادگی کا ایسا نمونہ پیش کرتے جو ہر دل کو مسخر کر لیتا۔ یہی جامعیت ان کے وجود کو ایک ہمہ گیر شخصیت میں ڈھال دیتی تھی۔جب انہوں نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا تو اصول و دیانت کو اپنا زادِ راہ بنایا۔ وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے تو اسے اقتدار کی کرسی نہیں بلکہ خدمت کی امانت جانا۔ صوبائی سطح پر اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینا، شراب و جوا پر پابندی عائد کرنا اور بلاتفریق عوامی مسائل کو حل کرنا ان کے دور کے وہ فیصلے ہیں جو آج بھی تاریخ کے صفحات پر تازہ ہیں۔ وہ بخوبی جانتے تھے کہ تخت و تاج کا انجام قبر ہے، اس لیے اقتدار کو کبھی اپنی منزل نہ بنایا بلکہ خدمت کو ہی اپنی معراج سمجھا۔ان کی حیات کا سب سے روشن اور سنہری باب 1974ء کی قومی اسمبلی ہے۔ جب قادیانیت کا مسئلہ ایوان میں زیرِ بحث آیا تو مفتی محمودؒ کی علمی بصیرت اور جراتِ ایمانی نے تاریخ کا دھارا موڑ دیا۔ مرزا ناصر کی جرح کے دوران ان کی زبان دلیل کی شمشیر اور حوالوں کی بارش بن گئی۔ ان کی گفتگو نے پوری اسمبلی کو قائل کر دیا اور بالآخر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا متفقہ فیصلہ ہوا۔ یہ وہ کارنامہ ہے جس نے مولانا مفتی محمودؒ کو ملت اسلامیہ کا محسنِ اعظم بنا دیا۔ آج دنیا بھر میں قادیانی غیر مسلم تسلیم کیے جاتے ہیں تو یہ انہی کی قیادت اور استقامت کا نتیجہ ہے۔مفتی صاحب کی آخری تاریخی تقریر – ایک وصیت6 جون 1980ء جامعہ عثمانیہ شیرشاہ کراچی کا افتتاحی دن دراصل حضرت مفتی محمودؒ کی حیات کا آخری سنہرا باب ثابت ہوا۔ اس عظیم اجتماع میں مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی رح ولی کامل مولانا مفتی احمد الرحمن رحمہ اللہ، حضرت مولانا سید عبدالمجید ندیم شاہ رحمہ اللہ، مولانا منظور احمد چینوٹی اور سرکردہ علماء کرام اور شخصیات شریک تھیں۔خطبۂ مسنونہ کے بعد آپ نے اپنی زندگی کی وہ تاریخی تقریر فرمائی جو آج بھی ایمان کو تازگی بخشتی اور دلوں کو جھنجھوڑ دیتی ہے۔آپ نے نہایت جلال اور درد کے ساتھ فرمایا:“ہم نے اپنی زندگی کا مقصد طے کر لیا ہے: یا تو اسلام کا نظامِ عدل اس ملک میں نافذ ہوگا یا ہم اپنی جانیں دے دیں گے۔ درمیان کا کوئی راستہ نہیں۔ اسلام کے سوا کسی باطل نظام سے صلح نہیں کی جا سکتی۔”پھر فرمایا:“33 برس کی طویل جدوجہد میں ہمارے سامنے مشکلات ضرور آئیں، لیکن ہم مایوس نہیں ہوئے، اس لیے کہ نتائج ہمارے اختیار میں نہیں، اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ انبیائے کرامؑ کی زندگی ہمارے سامنے ہے، کسی کے ساتھ ایک امتی تھا، کسی کے ساتھ دو، چھ یا چند ہی ساتھی لیکن انہوں نے کبھی اپنے مشن سے کوتاہی نہ کی۔ دل اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ جسے چاہے پھیر دے۔ ہم پر فرض ہے کہ ہم اس راستے پر جمے رہیں اور زندگی اسی میں گزاریں۔”اس کے بعد سامعین پر نگاہ ڈال کر فرمایا:“ہم اللہ کے سامنے اور آپ کے سامنے اقرار کرتے ہیں کہ ان شاء اللہ ہماری زندگیاں اسلام کے لیے وقف ہیں۔ ہم نے اسلامی نظام نافذ کرنا ہے۔ اقتدار کا انجام دیکھ لو! پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان جلسے میں گولی کا شکار ہوئے۔ مردِ آہن کہلانے والا غلام محمد ذلت کے ساتھ رخصت ہوا۔ سکندر مرزا کو جلاوطن کر کے لندن کے ایک ہوٹل میں ملا زمت پر مجبور کردیا گیا اور انکی لاش دفنانے کیلئے ایران بھیجی گئی جہاں دفن تو کر دیا گیا مگر پھر کیا ہوا دنیا نے دیکھا ۔ ایوب خان آئے، جب تک مسلط رہے رہے مگر پھر گھر کے اپنے بچوں نے اسے طعنہ دینا شروع کردیا تو مزید ذلالت سے بچنے کیلئے انہیں استعفیٰ دینا پڑا۔ یحییٰ خان کا یہ حشر ہے کہ وہ اب پنڈی کے محلے میں محصور ہے، شرم کے مارے اپنی گلی سے بھی نکلنے کے قابل نہ رہا اس لئے کہ گلی بچے پیچھے پڑجاتے ہیں ۔ بھٹو صاحب کا انجام بھی سب نے دیکھا۔ کیا یہ عبرت کے لیے کافی نہیں؟”اس موقع پر ان کی آواز میں لرزہ تھا، فرمایا:“مجھے تعجب ہے کہ تاریخ کے یہ انجام دیکھنے کے باوجود کسی نے سبق نہ سیکھا۔ میں نے سیکھا! جب وزیر اعلیٰ بنا تو استعفیٰ دیا، اور جب اپنی مرضی کے خلاف حکومت میں شامل کیا گیا تو اپنے ساتھیوں کو کھینچ کر باہر نکال لیا۔ کیونکہ کرسی ہماری منزل نہیں، ہمارا مقصد صرف اسلام ہے۔”جنرل ضیاء الحق کے نام نہاد اسلامی اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:“ڈیڑھ برس گزر گیا، مگر کیا کسی چور کا ہاتھ کٹا؟ کیا کسی زانی کو سنگسار کیا گیا؟ کیا کسی ڈاکو کو پھانسی ملی؟ اسلام کے نام پر قوانین ضرور بنائے گئے لیکن طریقہ ایسا رکھا گیا کہ ان پر عمل نہ ہوسکے۔ شرعی عدالت کا فیصلہ بھی سیشن کورٹ کی توثیق پر موقوف کر دیا گیا۔ یہ کھلا مذاق ہے، شریعت کی توہین ہے! ”پھر درد بھری صدا بلند کی:“ہم یہ نہیں چاہتے کہ کسی کا ہاتھ کٹے، ہم چاہتے ہیں کہ جرائم ختم ہوں۔ اگر ایک چور کا ہاتھ کاٹ کر لٹکا دیا جائے تو کراچی کا پورا شہر امن کا گہوارہ بن جائے۔ کیا یہ سودا سستا نہیں؟ ”آخر میں گویا پوری امت کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا:“یاد رکھو! اقتدار کی حقیقت قبر ہے۔ دنیا فانی ہے مگر اسلام کی سربلندی ابدی ہے۔ اگر ہم اسلام کے لیے جئے تو موت بھی شہادت ہے اور اگر دنیا کے لیے جئے تو زندگی بھی بیکار ہے۔اے نوجوانو! یہ مشعل اب تمہارے ہاتھ میں ہے، اسے بجھنے نہ دینا۔ یہی ہماری کامیابی ہے۔”یہ الفاظ آخری وصیت تھے، جو صرف اس اجتماع کے سامعین ہی نہیں بلکہ پوری امت کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔یہ الفاظ محض ایک تقریر نہیں تھے بلکہ پوری زندگی کا نچوڑ اور امت کے نام وصیت تھے۔ آج جب امت بکھراؤ اور انتشار کا شکار ہے تو دل یہی دعا کرتا ہے کہ ربِ کریم پھر سے کوئی مفتی محمودؒ عطا فرمائے جو قوم کو یکجا کرے، حق کا پرچم بلند کرے اور ملت کو اس کے اصل مقام تک پہنچائے۔
ملک بھر سے سے مزید