• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حضرت مو لا نا مفتی محمود ؒ کا پارلیمانی محاذ پر تاریخی کردار

تحریر:مو لا نا عبد الغفور حیدری
جنرل سیکرٹری جے یوآئی پاکستان وممبر قومی اسمبلی
پاکستان کےسیاسی دینی اور علمی ماحول میں مولانا مفتی محمود کے کارنامے اج بھی حوالے کے طور پر پیش کی جاتے ہیں پارلیمانی سیاست میں نظر ڈالیں تو70 ءکی اسمبلی میں مولانا مفتی محمود نے اپوزیشن کی اچھی روایات پارلمانی کے محاذ پر چھوڑیں جس پر اگر تسلسل سے عمل ہوتا تو یقینی طور پر اس وقت جو پارلیمان کے محاذ پر کشیدگیاں دوریاں اور نفرتیں ہیں شاید وہ پیدا نہ ہوتیں۔ مولانا مرحوم نے سیاسی اور پارلیمانی ماحول میں دلیل کی بنیاد پر حکومت کو اور مخالفین کو بھی قائل کیا اسے ہی سیاست کی بہترین روایات کہا جاتا ہے مفکر اسلام قائد جمعیت قائد پاکستان قومی اتحاد حضرت مولانا مفتی محمود کو دنیا سے رخلت فرمائے ہوئے تقریبا 44 برس کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن اپ کا علمی سیاسی تحریکی میدان میں کارنامے آج بھی یاد ہیں اور تاریخ کا لازوال حصہ بھی ہیں حضرت مولانا مفتی محمود کے علمی کردار کے حوالے سے کئی کتابیں ان کی زندگی پر لکھی جا چکی ہیں ان کے علمی کارناموں پر آج بھی علمی حلقوں میں ان کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے جبکہ پاکستان میں اس وقت سن 73 کا جو متفقہ آئین موجود ہے اس کے بنوانے میں دیگر شخصیات کے ساتھ حضرت مولانا مفتی محمود کا کردار بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے اپ نے اس ائین میں جو اسلامی شقیں شامل کروائیں اور دیگر حوالے سے جو کردار ادا کیا وہ اج بھی ائین پاکستان کو دیکھ کر سمجھابھی جا سکتا ہے دیکھا بھی جا سکتا ہے اور یقینا اس پر حضرت مولانا مفتی محمود کو جتنا بھی خراج تحسین پیش کیے جائے وہ کم ہے حضرت مولانا مفتی محمود رحمۃ اللہ علیہ نے قومی اسمبلی کے محاذ پر قائد حزب اختلاف کے طور پر جو کردار ادا کیا ہے وہ یقینی طور پر انے والے وقتوں میں لوگوں کے لیے اصول مہیا کرتا ہے اپ نے بحیثیت قائد بھی اختلاف کیا لیکن وہ اختلاف برائے اختلاف نہیں وہ دلائل کی دنیا میں ایک منجھے ہوئے سیاستدان کے طور پر ادا کیا یہ حقیقت تاریخ کا ایک اہم حصہ ہےحضرت مولانا مفتی محمود رحمۃ اللہ علیہ کی ساری زندگی اشاعت اسلام اور وطن عزیز میں اسلام کے عادلانہ نظام کے نفاذ جو نظام عوام کو حقوق کا محافظ ہے کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے گزری۔ قومی اسمبلی کے محاذ پر حضرت مولانا مفتی محمود نے جس جرات کے ساتھ عقیدہ ختم نبوت کے جنگ لڑی اور قومی اسمبلی کے منمبران کے سامنے ختم نبوت کے باغیوں کی سرکوبی کرتے ہوئے دلائل کے انبار لگائے تو پوری قومی اسمبلی نے بیک زباں حضرت مفتی صاحب کے دلائل کے بعد یہ فیصلہ دیا کہ ختم نبوت کا جو بھی منکر ہوگا یا کوئی رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دعوی نبوت کرے گاوہ دائرہ اسلام سے خارج ہے، قومی اسمبلی کے محاذ پر گفتگو ایک یا دو گھنٹے یا دو دن کے لیے نہیں ہوئی بلکہ مسلسل گفتگو ہوتی رہی اور بالاخر 1953ء کی تحریک ختم نبوت کا نتیجہ قوم نے 74ء میں قومی اسمبلی سے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے تاریخی فیصلہ کی صورت میں دیکھا۔ مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمو رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ بے پنا خوبیوں سے نوازا ہوا تھا آپ نے علمی، مذہبی، سیاسی، سماجی، معاشرتی اور آئینی محاذوں پر اسلامیان پاکستان کی بہترین رہنمائی کرکے ایک منفرد مثال قائم کی ہے۔حضرت مولانا مفتی محمودؒکے تقویٰ وطہارت، تدبر وحکمت، متانت وسخاوت اور زندہ دلی وشفقت کی بے شمار داستانیں تاریخ کا حصہ ہیں،مولانامفتی محمودؒ بیک وقت جید عالم دین، محدث، جہاندیدہ سیاست دان، قومی رہنما، فقیہ، مفتی، محقق، مدرس، پارلیمنٹرین، اور ہردلعزیز عوامی شخصیت تھے۔۔ پا کستان میں نظریاتی سیا ست کو فروغ دینے میں اپنے اکابرین کے آپ حقیقی وارث تھے،حضر ت مو لا نا مفتی محمو درحمہ اللہ نڈر عالم دین،بے باک خطیب،امت کے ترجمان،عقیدہ ختم نبوت کے عظیم مجاہد تھے حضرت مولانا مفتی محمود کو رب کائنات نے نے بے شمار خوبیوں سے نوازا ہوا تھا وہ نامور عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ قابل احترام نامور سیا سی شخصیت تھے، قدرت نے آپ کو بڑی بصیر ت سے نو ازا تھا سیا سی میدا ن میں آپ ؒ کے فیصلے اس پر شا ہد ہیں جن کی اپنو ں نے تعر یف تو کی ہی ہے لیکن دیگر بھی حضر ت مفتی صا حبؒ کو خر اج تحسین پیش کئے بغیر نہ رہ سکے حضر ت مفتی صا حب ؒ نے اپنی سیا سی زندگی کا آعا ز 1942ء میں جمعیت علما ء ہند کے پلیٹ فا رم سے کیا اور اپنے اکا بر کے حکم پر مشہو ر تحر یک، ہندوستا ن چھوڑ دو، میں بڑھ چڑ ھ کر حصہ لیا پھر آپ ؒ تھوڑے ہی عر صہ میں جمعیت علما ء ہند کی مجلس عا ملہ کے رکن بنے جو اس دور میں کسی شخصیت کے لیے بڑے اعزا ز کی با ت تھی اس کے بعد 1947ء میں جب اللہ تعا لی کے فضل اور مدد سے پا کستا ن بنا تو حضر ت مفتی ؒ نے پا کستا ن کی سیا ست میں جمعیت علما ء اسلا م کے پلیٹ فا رم سے حصہ لیا اورمختلف ادوار میں جمعیت علما ء اسلا م کے مختلف منا صب پر فا ئز رہے یہ با ت بھی ایک حقیقت ہے کہ جمعیت علماء اسلا م کی بنیا دوں اور تعمیر وتر قی میں حضر ت مفتی ؒ صا حب کی خدما ت کسی سے مخفی نہیں،شیح التفسیر حضر ت مو لا نا احمد علی لا ہو ری ؒ نے جب جمعیت علما ء اسلا م کے احیا ء کی ضرو ر ت محسو س کی جس کی بنیا د پا کستان کے بننے کے بعد شیخ الا سلا م علا مہ شبیر احمد عثما نی ؒنے رکھی تو حضر ت لا ہو ری ؒ کے سا تھ جن شخصیات نے جمعیت علماء اسلا م کو ملک گیر جما عت بنا نے کے لیے بنیا دی کر دا ر ادا کیا ان میں مفکر اسلام حضر ت مو لا نا مفتی محمو دؒ، حافظ الحدیث حضر ت مو لا نا محمد عبد اللہ در خو استی،مجاہد ملت حضر ت مو لا نا غلا م غو ث ہز اروی، ؒ ؒ ؒؒخطیب اسلام حضر ت مو لا نا محمد اجمل خا ن،حضر ت مو لا نا مفتی عبد الو احد ؒ کا نا م ہمیشہ سنہری حرو ف سے در ج کیا جا ئے گا۔ 1956ء کا آئین ملک پا کستا ن کا پہلا آئین تھا چا ئیے تو یہ تھا کہ اس آئین کے اندر اسلا می قو انین کا مکمل نفا ذ ہو تا لیکن اس کے با لکل بر عکس اس آئین میں اسلا م کو صر ف دیبا چہ تک محدود رکھا گیا اور غیر اسلا می قو انین کے نفا ذ کی کو شش کی گئی جمعیت علما ء اسلام کی قیا دت اس خطر ہ کو بھا نپ گئی اور آئین سے غیر اسلا می دفعا ت کے خاتمے کے لیے حکو مت پر زور دیا چنا نچہ حضر ت مفتی صا حب ؒ کی قیا دت میں اس فر یضہ کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے نہ صر ف غیر اسلا می شقوں کو بے نقا ب کیا اور عو ام کو آگا ہ کیا بلکہ اس پر تنقیدات وتعمیر ات کی ایک جا مع رپو رٹ بھی تحریر کی اور مزید یہ کہ اس پر ایک مختصر مگر جامع تبصر ہ کر تے ہو ئے ساری قلعی کھو ل دی،حضرت مفتی صا حب ؒنے لکھا کہ مسلما نو ں کو 1956ء کے اس آئین کے با رے میں بڑی کسی خو ش فہمی میں مبتلا ء نہیں رہنا چا ہیے کیو نکہ اس آئین میں اسلا م کو بطور تمہید ذکر کیا گیا ہے جو قا نو نا ً دستو ر کا حصہ نہیں بنتا1956ءمیں حکو مت نے تحفظ حقو ق نسو ا ں کے نا م سے ایک مسو دہ تیا ر کیا جو بعض وجو ہا ت کی بنا پر التو ا ء کا شکا ر رہا1958ء میں ایو ب خا ن کی فو جی حکو مت نے اس مسودہ کے کچھ مند رجا ت کا آرڈ ینس کے ذریعہ نفا ذ کردیا جو سر اسر اسلا می تعلیما ت کے متضا د تھے مثلا ً۔اگر کسی لڑکی یا لڑ کے کا اپنے والد سے پہلے انتقا ل ہو جا ئے تو اس کو با پ کی وراثت میں اسی قدر حصے دار تصور کر یں گے جیسا کہ وہ اپنی زندگی میں تھے یہ با ت نہ صر ف اسلا می تعلیما ت کے خلا ف تھی بلکہ خلا ف عقل بھی تھیں بھلا مر جا نے کے بعد جا ئیدا د کا کیا فا ئدہ۔چنا نچہ حضر ت مفتی صا حب ؒ نے اس غیر اسلا می مسودہ کیخلا ف صدا ئے حق بلند کی اور فر ما یا کہ اسمبلی کے اندر میر ی مو جو دگی میں اللہ تعا لی اور اس کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے خلا ف کو ئی کا روائی کو ئی قا نو ن سا زی مکمل نہیں ہو سکے گئی میں سید نا صد یق اکبر رضی اللہ عنہ کے اس تا ریخ سا ز خطبہ سے را ہ نما ئی حا صل کر تا ہو ں کہ آپ ؓ نے ابتداء خلافت میں دین اسلام کے بارے میں نر می اختیار کر نے کے مشورے کے جواب میں فر ما یا تھا کہ حضور پاک ﷺ جو دین چھوڑ کر گئے ہیں وہ کسی کمی کا شکا ر ہو جا ئے اور میں زندہ رہو ں یہ نہیں ہو سکتا پھر آپ نے اپنے مدبر انہ اور عالما نہ اندا ز میں قر آن وسنت اور مذاہب خمسہ کے ذریعے ان قو انین کی دھجیا ں بکھیر دیں اور حقیقت کو واضح کر کے رکھ دیا 1962ءمیں جب فو جی آمر ایو ب خا ن نے کما ل عیاری سے بی ڈی سسٹم کے ذریعے ملک پر آمریت مسلط کرنے کی کو شش کی اور 21۔اپر یل 1962ء کو انتخا با ت کا اعلا ن کیا تو حضر ت مفتی صا حب ؒ نے سیا سی جما عتو ں پر پابندی کی وجہ سے انفر دی طو ر پر الیکشن میں حصہ لیا اور ڈیرہ اسما عیل خا ن کی سیٹ پر پہلی مر تبہ بھا ری اکثر یت سے کا میا ب ہو گے کو ئی امید وار بھی مقا بلہ نہ کر سکا۔جب اسمبلی میں حلف لینے کی رسم ادا کی گئی تو حضر ت مفتی صا حب ؒ نے حلف کے ان الفا ظ کہ دستور کو با قی رکھوں گا کے متعلق واشگا ف الفا ظ میں فر ما یا کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ دستور کو جو ں کا تو ں با قی رہنے دیں گئے بلکہ اس دستور کے ذریعے دئیے ہو ئے اختیا را ت کو برو ئے کا ر لا تے ہو ئے ان جملہ خر ابیو ں اور خا میوں کو جو قر آن وسنت کے متصا دم ہو ں گی ان میں تر میم کر یں گئے مر د درویش کے یہ الفا ظ اسمبلی کے ریکا رڈ میں شا مل کیے گئے۔1965ء میں مفتی صا حب ؒ کا انتخا بی معرکہ حکومتی ریشہ دوانیو ں کی نذر ہو گیا۔1970ء کے الیکشن میں حضر ت مفتی صا حبؒ نے مسٹر ذوالفقا ر علی بھٹو مر حو م کو تیر ہ ہز ار ووٹو ں سے شکست فا ش دی جبکہ اسی الیکشن میں مسٹر بھٹو ملک کے پا نچ دیگر حلقو ں سے بھا ری اکثر یت سے جیتے تھے یکم مئی 1972ء کو حضر ت مفتی صا حب ؒ نے صو بہ سر حد خیبر پی کے وزارت اعلی کا قلمدا ن سنبھا لا اور نو ما ہ کی قلیل مدت میں جو دینی اور سیا سی کا رہائے نما یا ں سر انجا م دیئے مخا لفین بھی اس کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکے صو بہ سر حد کی فضا ء کو اسلا می بنا نے کے لیے انہو ں نے وہ تما م اقدا ما ت کیے جو قا نون نے وزیر اعلی کو دئیے تھے۔مثلا ً۔شر اپ پر پابندی،مسا جد کو زیا دہ سے زیا دہ آبا د کر نا،صو بے میں دینی تعلیم کے فرو غ کے لیئے اقدا ما ت، جمعۃ المبا رک کے اجتما عا ت کو عو ام کے لیے تر غیبی اندا ز میں ڈھا لنا او ر اسکی تدابیر،اوقا ف کی مسا جد کے علماء کو با وقا ر مقام عطاء کر نا،سنیما گھروں کی غیر اسلامی حرکات کی مو ثر روک تھا م،سکول اور کا لج میں اسلا می تعلیمات کو فر وغ دینے کے لیے مختلف تدابیر کا استعما ل، پا کستا ن کے جید علما ء سے مشا ورت کا اہتمام تا کہ اسکی روشنی میں وفا قی حکو مت کو اسلا می نظا م قا ئم کرنے کے لیے راہ نمائی دی جا ئے۔اگر مفتی محمود صا حب ؒ کو کا م کر نے کا مو قعہ دیا جا تا تو زما نہ دیکھتا کہ ان کی جدوجہد سے صو بہ سر حد میں ایک مثا لی طر ز کی اسلا می حکو مت قا ئم ہو تی اور اسلا می نظام کا مکمل نفا ذ ہو تا اور ایک بہتر اسلا می اور مثا لی معا شر ہ معر ض وجو د میں آتا پر کسی کو بھی حضر ت مفتی صا حب ؒ کے یہ اقدا ما ت پسند نہ تھے کیو نکہ حضر ت مفتی صا حب ؒ عو ام کو لو ٹنے والے نہیں بلکہ عو ام کو ان کی رقم لو ٹانے والے مثالی طرز حکمران تھے۔حضر ت مفتی صا حب مرحو م کی مذہبی اور سیا سی خدما ت میں سب سے قا بل قدر اور عظیم کا رنامہ اسمبلی میں مر زائیت کے خلا ف آواز حق بلند کر نا ہے دیگر مذہبی وسیا سی راہنما وں کی معاونت سے حضر ت مفتی صا حب ؒ نے اسمبلی میں مرزائیت کے خلاف جنگ لڑی اور مر زا نا صر کے سا تھ گیا رہ دن اور لا ہو ری فرقہ کے خلا ف سا ت گھنٹہ اسمبلی کے فلور پر منا ظرہ کیا اور انہیں شکست فا ش دی اور حضر ت مفتی صاحب ؒاور دیگر زعما ء قوم کی محنت رنگ لا ئی اور 7ستمبر1974ء کو مر ز ائی اور لا ہوری فر قہ اتفا ق رائے سے غیر مسلم اقلیت قر ار پا ئے۔1977ء میں بھٹو حکو مت نے جب قو م کو سیا سی طو ر پر منتشر دیکھا تو اچا نک انتخا با ت کا اعلا ن کر دیا حضر ت مفتی صا حب ؒ اس وقت قو می اسمبلی میں قا ئد حزب اختلا ف تھے چنا نچہ آپ نے تمام قو می سیا سی جما عتو ں کو اتحا د کی دعوت دی اور نو جما عتی اتحا د وجو د میں آیا جس کا نا م پا کستا ن قو می اتحا د تھا آپ ؒ اسی اتحا د کے صدر تھے۔انتخا با ت میں خو ب دھا ندلی ہو ئی تو پو ری قو م شعلہ جوالہ بن گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس تحریک نے تحر یک نظام مصطفی کا رخ اختیا ر کر لیا اور پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا با لآخر بھٹو حکو مت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور مذاکرات کی میز پر آنا پڑا حضر ت مفتی صا حب ؒ اپنے 32 نکا ت میں سے 31 نکا ت مسٹر بھٹو سے منو انے میں کا میا ب ہو گے جنرل ضیا ء الحق کے دور حکو مت میں حضر ت مو لا نا مفتی محمو د ؒ نے اسلا می نظام کے نفا ذ کے لیے ہر ممکن راستہ اختیا ر کیا اور جو کچھ اسلا می نظا م کے لیے ہو سکا ایک مدرسے کے پڑھے ہو ئے اور مدرسے میں پڑھانے والے ایک عالم اور شرعی مسائل پر فتوے دینے والے ایک مفتی نے سیاست میں اس طرح حصہ لیا کہ جدید تعلیم یافتہ حضرات کے ہجوم میں نہ صرف نمایاں ہوا بلکہ بہت سوں کو سیاست کاسبق پڑھایااور اسلامی سیا ست سے روشناس کرویا آپ کی سیا سی مسائل پر رائے فتوی کی طرح محترم سمجھی جاتی تھی گو یا ملکی تاریخ کو پہلی بار دین وسیاست کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملا مفتی صا حب کی شخصیت اس قدر بلند ہے کے ان پر جس قدر لکھا جا ئے اتنا ہی کم ہے تحریر وتقریر کی دنیا سے مفتی صاحب کا قد وکاٹھ بلند ہے ملکی تاریخ میں خود ایک تاریخ بن کر یہ عظیم شخصیت 1980ء؁ میں کراچی میں سفر حج کی تیاری میں خالق حقیقی سے جا ملی۔
ملک بھر سے سے مزید