• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دراصل یہ تنظیم اس احساس سے دو چار ہے کہ وہ ناقابل شکست ہے۔ اس احساس نے اس دن جنم نہیں لیا جس دن سلمان تاثیر کے قاتل کو پھانسی دی گئی تھی۔ اس دن بھی نہیں لیا جس دن اسکے مظاہرین کو کڑک نوٹ دیکر گھر روانہ کیا گیا تھا۔اس احساس نے اس دن جنم لیا تھا جس دن ایک منتخب حکومت کو اسکے آگے سرنڈر کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ یہ سرنڈر یکبارگی ہوتا تو کسی طرح ہضم بھی کیا جاسکتا تھا، مگر ارطغرل ڈرامے کی طرح اس سرنڈر کا قسط وار سلسلہ پیش کیا گیا۔ پہلی قسط اس دن نشر ہوئی تھی جب اس پارٹی نے کہا کہ ہم حکومت کا دھڑن تختہ کرنے اسلام آباد جارہے ہیں۔ دوسری قسط اس دن نشر ہوئی جب اس کو فیض آباد پر بستر ڈالنے کیلئے تمام تر سہولتیں فراہم کی گئیں۔ کئی دن چلنے والے دھرنے میں جی میں جو آیا انہوں نے کہا۔ دھمکی تڑی گالم گفتار سب چلتا رہا۔حضرت صاحب کا لائیو خطاب ہر تین گھنٹے بعد سوشل میڈیا پر نشر ہوتا رہا۔ انہیں پانی کی کمی تھی نہ خوراک کا مسئلہ تھا۔ ٹھنڈ سے بچائو کیلئے ایرانی کمبل بھی پہنچا دیئے گئے تھے۔ بون فائر محفلیں بھی چل رہی تھیں۔ قرب و جوار میں برگر چنا چاٹ گول گپے سوپ اور چائے کی ریڑھیاں بھی لگادی گئی تھیں۔ متعین گاڑیاں متعین وقت پر دو وقت کا کھانا سہولت کے ساتھ پہنچا رہی تھیں۔ حالانکہ راستے اس ایمبولینس کیلئے بھی بند تھے جس میں ایک بیمار ماں آخری سانسیں لے رہی تھی۔

سرنڈر کی تیسری قسط وہ تھی جس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو حکم دیا کہ بلوائیوں کے خلاف کارروائی کرکے فیض آباد کی ٹریفک بحال کی جائے۔ یہ حکم اسلئے بھی اہم تھا کہ فیض آباد شہہ رگ ہے۔اس پر کوئی پائوں رکھ دے تو زندگی رک جاتی ہے۔ اس پر سابق صاحب نے بقلم خود بیان جاری کرتے ہوئےکہا، یہ ہمارے اپنے لوگ ہیں ہم انکے خلاف کارروائی کیسے کر سکتےہیں۔ یہ سنکر اس تنظیم کے کارکنوں نے احتجاج اور پھیلا دیا۔سرنڈر کی چوتھی قسط سیاست کے حساس طالب علموں کیلئے بہت تکلیف دہ تھی۔یہ وہ قسط تھی جس میں وفاقی وزیر قانون کو اپنے عقیدے کی وضاحت کیلئے چار رکنی کمیٹی کے سامنے پیش کیا گیا۔ چار رکنی کمیٹی نے وضاحت کو ناکافی قرار دیکر وزیر قانون سے استعفیٰ لے لیا۔ کہانی یہاں رک جاتی تو دکھ کی اس رات کو ایک رات سمجھ کر بھلایا جاسکتا تھا، مگر اس تنظیم کو الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ کرکے اس رات کو اگلے کئی برسوں تک پھیلا دیا گیا۔ سمجھا یہ جارہا تھا کہ اس سب کے نتیجے میں حکومت کمزور ہو رہی ہے۔ حقیقت مگر یہ تھی کہ اس سب کے نتیجے میں ریاست کمزور ہورہی تھی۔ ہم اسٹرٹیجی کے عنوان تلے لمحے کو سدھار نے کی کوشش کرتے ہیں اور پورے زمانے کو دائو پر لگا دیتے ہیں۔ عارضی بندوبست کی خاطر بارود کے ڈھیر کو تیلی دکھاتے وقت ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ راستے میں ہمارا مکان بھی پڑتا ہے۔آگ دہلیز تک پہنچتی ہے تو ہمیں جاگ آتی ہے۔اسی اور نوے کی دہائی میں ہم نے جو بویا وہ 2001ء کے بعد ہم نے کاٹنا شروع کیا۔ انگ انگ ہل گیا تو ہم نے فیصلہ کیا کہ اب پرانے تجربوں کو دھونا شروع کرینگے۔ مگر یہ فیصلہ کرنا بھول گئے کہ پرانے تجربوں کو دوبارہ نہیں دہرائیں گے۔ سال 2017ء میں یہ تجربہ ہم نے پھر سے دہرایا۔ پہلا نتیجہ یہ نکلا کہ سیاست میں بجھتے ہوئے مذہبی کارڈ نے پھر سے آگ پکڑلی۔سابق وزیر اعظم پرجوتا پھینکا جانا، ایک وزیر کے منہ پر سیاہی اور دوسرے وزیر پرگولی کا چلنا، بہاولپور یونیورسٹی میں پروفیسر اور خوشاب میں بینک منیجر کا قتل ہونا، سری لنکن شہری کو آگ لگانا، امر جلیل کے سر کی قیمت لگنا، 767 نوجوانوں کا گستاخی کیس میں پھنسنا اسی تجربے کا تسلسل تھا۔آج جو موٹر وے بند ہیں، پورے پنجاب میں دفعہ 144نافذ ہے اور جی ٹی روڈ پر خندقیں کھدی ہوئی ہیں یہ سب بھی اسی تجربے کا نتیجہ ہیں۔یہ بات درست ہے کہ نظم اجتماعی کیلئے چیلنج بن جانیوالے گروہوں کو سیاسی طور پر جوڑا جاتا ہے۔یہ طریقہ مگر تب کارگر ہوتا ہے جب اس گروہ میں ہلکی سی کوئی سیاسی رمق موجود ہو۔ مذکورہ تنظیم کے مطالبات اور اسکی سرگرمیاں کبھی سیاسی نہیں رہیں۔ سیاسی اپروچ کا یہ عالم ہے کہ جب حماس نے ٹرمپ کے بیس نکاتی ایجنڈے سے اتفاق کرلیا ہے تو یہ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔جماعت کہتے ہی اسے ہیں جو گفتگو، شراکت اور مشاورت پر یقین رکھتی ہے۔سیاست کی اس تکون سے جو جماعت باہر ہوجائے وہ جتھہ بن جاتا ہے۔جتھہ بات چیت کو دوسرے فریق کا بڑا پن سمجھنے کی بجائے اپنی فتح سمجھتا ہے۔پاس لحاظ اور رکھ رکھائو کو کمزوری سے تعبیر کرتا ہے۔پچھلے برس پنجاب حکومت نے ان لوگوں کو عرس منانے کیلئے ضرورت سے زیادہ سہولیات فراہم کیں۔مان لیتے ہیں کہ ایسا اسلئے کیا ہوگا کہ یہ تنظیم رواداری کا کچھ مظاہرہ کرلے گی۔ مگر کیا ہوا؟ یہ عرس دنیا کا پہلا عرس بن گیا جس میں گالیوں اور دھمکیوں والی قوالیاں چلائی گئیں۔جتھہ گیری کی اس روایت کا اب کسی بھی طور خاتمہ ہونا چاہئے۔ ہجوم کو منتشر کرنے کیلئے بات چیت کا عارضی دروازہ کھولنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ حرج اس قدم میں ہے جس سے انتظامی سرنڈر کا ہلکا سا تاثر بھی ابھرتا ہو۔ سامنے سیاسی مطالبات کے ساتھ کوئی سیاسی جماعت کھڑی ہو تو پوری گردن جھکا لینا بھی عظمت ہے۔جتھہ کھڑا ہو تو گردن جھکانے کا تاثر بھی سرنڈر ہے۔ اب کی بار بھی سرنڈر کا یہی تاثر ابھرا تو عوام میں موجود عدم تحفظ کا احساس اور بھی گہرا ہو جائیگا۔ وہ راستہ بھی دشوار ہو جائیگا جس سے گزر کر لوگ واپس سیاسی روایات کی طرف آ سکتے ہیں۔ زندگی سے جڑی کسی بات کی طرف آسکتے ہیں۔

تازہ ترین