• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مریدکے میں 13اکتوبر کی صبح کاذب جوٹریجیڈی ہوئی وہ قابلِ افسوس ہے، لہو کسی کا بھی گرے یکساں قابل افسوس ہے، اس کرۂ ارضی پر بسنے والے تمام انسان اولاد آدم، عیال اللہ یعنی خدا کا کنبہ ہیں۔ کسی ایک بے گناہ انسان کو مارنا ایسے ہی ہے جیسے پوری انسانیت کو قتل کرنا۔ چاہیےتو یہ کہ مذہب کے مقدس نام کو سیاسی مقاصدو مفادات کیلئےہرگز ہرگز استعمال نہ کیا جائے کہ سیاست میں توتلخی و کشیدگی عام بات ہے جبکہ مذہب تو عاجزی، حلیمی ، خداترسی اور رحمدلی سکھلاتا ہے ۔ ہمارے صوفیائے کرام نے خطۂ ہند میں اپنے اعلیٰ اخلاق، پیار محبت اور اپنائیت سے دلوں کو موہ لیا اجمیر شریف والے حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کی انسان نوازی سب پر واضح ہے آپ ہندوئوں کے تہواروں تک میں شریک ہوا کرتے تھے۔ ہم اپنے آقاﷺکی نعتیں پڑھتےہیں کہ ’’سلام اس پرکہ جس نے گنہگاروں کو فرمایا یہ میرے ہیں ‘‘بلاشبہ آقاﷺنے جنگیں کیں اگرچہ وہ ساری دفاعی تھیں مگر کب؟ جب ایک اتھارٹی ایک ریاست قائم کرلی۔ جب تک یہ نہیں ہوا آپ تیرہ سالہ طویل مکی دور ملاحظہ فرمالیں مظالم سہےمگر کبھی کسی کو جوابی طور پر بھی ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہ دی۔ثابت ہوا، ہتھیار اٹھانا یا جہاد کرنا صرف ریاست کی اتھارٹی ہے۔ اس حوالے سے بڑے بڑے علمائے دین کے ساتھ بحثیں کرتے ہوئے درویش کی کتاب ”جہاد یادہشت گردی؟“ میں تفصیلات قابلِ ملاحظہ ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ ہمارے آئین میں احتجاج کرنا ہر شہری کا حق ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ پرامن ہو جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ عموماً مذہبی گروہ جب نکلتے ہیںتو سرکاری املاک کو بیدردی سے توڑ پھوڑ رہے ہوتے ہیں اگر کوئی پولیس والا ہتھے چڑھ جائے تو اس پریلغار کردیتے ہیں تو ایسے احتجاج کی اجازت کوئی بھی آئینی ریاست کیسے دے سکتی ہے؟ درویش کو اس نوع کی شکایات دیوبندی و سلفی فرقوں سے منسلک احباب سے رہیںبریلوی بھائیوں کے متعلق یہ گمان تھا کہ یہ درود والے ہیں بارود والے نہیں مگر جب سے مرحوم خادم حسین رضوی کی لبیک پارٹی بنی ہے افسوس ہمارے ان بھائیوں نےبھی تشددکی راہ اپنا لی ہے۔ 2017ء سے لے کر پچھلی حکومتوں میں جب یہ بھائی نکلے تو توڑ پھوڑ کرتے پائے گئے۔ پولیس والوں کو پکڑا تو جان سے ماردینے تک پہنچ گئے۔کس ملک کا سفیر اسلام آباد میں ہونا چاہیے کس ملک کا نہیں؟ یہ آپ لوگوں کا نہیں ریاست اور اسکی حکومت کا کام ہے۔ آپ اپنی رائے کا پرامن اظہار کرسکتے ہیں جبر یا تشدد کا حق آپ کو کس نے دیا ہے؟یہی حضرت صاحب تھے جو ہماری ہائیکورٹ کے اندر کھڑے ہوکر اس نوع کی خوفناک دھمکیاں دیتے پائے گئے کہ بلاسفیمی کیسز میں اگر ہماری پسند کے فیصلے نہ آئے تو ہمارے پاس چھرا موجود ہے ہم اس کا استعمال کریں گے۔ اب جب قانون کا شکنجہ آپ کی طرف بڑھا تو آپ نے دہائیاں دینا شروع کردیں کہ اے آقا ﷺ ہماری مدد کو آئیں، آپ لوگوں کو اتنا تو معلوم ہونا چاہیے کہ اس آقاؐ نے اپنی بدترین بلاسفیمیاں کرنے والےعبداللہ ابن ابی کی موت پر بھی حسن سلوک روارکھا ، خود اس کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کتنی خوبصورت بات کہی کہ مذہب کے نام پر جتھے بنانے اور سڑکیں بند کرکے عوام کو یرغمال بنانے سے بڑی توہین مذہب کیا ہوگی۔وفاقی وزیر احسن اقبال پوچھ رہے ہیں کہ جب غزہ میں مکمل جنگ بندی اور امن کے بعد فلسطینی عوام خوشی سے ناچ رہے ہیں اورحماس نے بھی ٹرمپ امن منصوبہ قبول کرلیا ہے تو پاکستان کی سڑکوں پر ایک مذہبی تنظیم کیوں انتشار پیدا کررہی تھی؟ احسن اقبال صاحب اس کی تحقیق خود حکومت کو کرنی چاہیے کہ ٹی ایل پی بغیر خفیہ اشاروں کے سڑکوں پر نہیں نکلتی، کہیں ایسا تو نہیں کہ اندر خانےکوئی بدخواہ انکی قیادت کے ساتھ خفیہ رابطے میں ہو؟ آپ لوگوں کو سن سترہ کا فیض آباد میں وہ دھرنا بھی یاد ہوگا جو جمہوری حکومت کی چولیں ہلانے کیلئے کیا گیا تھا جسکے خلاف قاضی فائز عیسیٰ نے تاریخ ساز فیصلہ دیا تھا۔ وہ جوتا بھی یاد ہوگا جو نوازشریف پر پھینکا گیا وہ سیاہی جو خواجہ آصف کے منہ پر پھینکی گئی وہ گولی جو آپ کو لگی۔ میڈیا میں یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ وہ مولوی جو تیس ہزار کی تنخواہ پر ملازم تھا، اس کے گھر سے کروڑوں کی ملکی و غیر ملکی کرنسی کے ساتھ اتنا سوناکیسے برآمد ہورہا ہے؟ تو کیا مذہب کے اس بیوپار کا مدعا سمجھ نہیں آجانا چاہیے؟۔

پبلک کے سامنے سردھڑ کی بازی لگانے کا کہہ کر مدینہ شریف سے آیا کفن باندھ رہے ہیں لیکن موقع ملتے ہی پلو سے چہرہ چھپا کر پتلی گلی سے نکل جاتے ہیں اور پھر فیک نیوز پھیلائی جاتی ہیں کہ تین گولیاں لگ گئیں چھوٹا بھائی شہید ہوگیا تاکہ پبلک میں اشتعال پھیلے ڈی آئی جی فیصل کامران دکھ کے ساتھ بتارہے تھے کہ یہ لوگ مذہب کا نام لے کر کس قدرغلط بیانی کرتے ہیں، سر تن سے جدا کی دھمکیاں دیتے ہیں، ہمارے جوانوں کو گولیاں مارتے ہیں ایس ایچ او شہزاد کا جرم کیا تھا؟ ہمارے جن جوانوں کے نچلے دھڑ ناکارہ بنادیے گئے ان کا قصور کیا تھا؟ڈی آئی جی کہہ رہے تھے کہ انکے ساتھ ہماری بات چیت چل رہی تھی انکے تمام مطالبات ذاتی ،مفاداتی اور اپنے کریمنلز کو چھڑوانے کیلئے تھے کوئی ایک مطالبہ بھی فلسطینیوں کیلئےنہیں تھا ۔ حقائق جو بھی ہیں اصل مجرم خود ہماری حکومتیں یا طاقتور ہیں یہ لوگ آخر ایسے جنونی گروہوںکوکیوں پروان چڑھاتے ہیں؟ عوا م تو انکی نظروں میں جیسے بھیڑ بکریاں ہیں۔ عوام کو بھی چاہیے کہ وہ جنونیت کی پہچان کرلیں ،انکے بہکاوے میں نہ آئیں ہمارے عام آدمی کا اصل ایشو روزی روٹی اورسماج میں عزت کیساتھ جینا ہے سرکار کواس میں سہولت کار بننا چاہیے نہ کہ جنونیوں کو پالنے میں۔

تازہ ترین