تفہیم المسائل
پس صف کے آخر میں کرسی رکھ کر نماز پڑھنے والے کا اتصال اگر صف سے نہ ہو یا پچھلی صفوں میں کہیں وہ تنہا کرسی پر بیٹھ کر جماعت کے ساتھ نماز اداکرے تو بھی جماعت کا ثواب اُسے ملے گا۔ سب سے بہتر یہ ہے کہ جب تک کسی نہ کسی ہیئت پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے، تو بیٹھنے کو ترجیح دے، مثلاً : التَّحیّات کی حالت میں بیٹھنا یا آلتی پالتی مار کرچوکور انداز میں بیٹھنا یا پاؤں سہولت کے مطابق دائیں یا بائیں جانب نکال کر سُرین پر بیٹھنا یا سُرین پر بیٹھ کر ٹانگیں قبلے کی جانب کرکے بیٹھنا، مگر اس صورت میں گھٹنوں کو کھڑا رکھے ،علامہ زین الدین ابن نجیم حنفی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ پھر جب مریض بیٹھ کر رکوع وسجود کے ساتھ یا اشارے سے نماز پڑھے، تو وہ کس طرح بیٹھے گا، تشہد کی حالت میں، وہ اجماع کے مطابق ویسے ہی بیٹھے گا جیسے تشہد کے لیے بیٹھتا ہے۔
قیام اور رکوع کی حالت میں، امام ابو حنیفہؒ سے روایت ہے :کسی کراہت کے بغیر وہ جس طرح چاہے، بیٹھ سکتا ہے، چاہے وہ احتباء ( بیٹھنے کا ایک خاص طریقہ ہے، اس کی صورت یہ ہے کہ دونوں سرینیں اور دونوں پاؤں کے تلوے زمین پر ہوں اور دونوں زانوں کھڑے ہوں اور انہیں دونوں ہاتھوں کے حلقہ میں لے لیا جائے) کا انداز اختیار کرے یا چوکڑی مار کر بیٹھے، یا گھٹنوں کے بل بیٹھے، جیسا کہ تشہد میں ہوتا ہے۔ امام زفرؒ نے فرمایا: تمام نمازوں میں وہ اپنی بائیں ٹانگ کو بچھاتا ہے اور امام ابو حنیفہ ؒ نے جو روایت فرمایا ، وہی صحیح ہے ، کیونکہ بیماری کا عذر اس پر ارکان کو ساقط کر دیتا ہے، تو اس کے لیے ہیئتوں کو ساقط کرنا زیادہ مناسب ہے۔
جیسا کہ ’’بدائع الصنائع ، خلاصہ، تجنیس اور ولوالجیہ‘‘ میں امام زُفر کے قول پر فتویٰ دیا گیا ہے، کیونکہ یہ بیمار کے لیے زیادہ آسان ہے،(البحرالرائق ، جلد2، ص:122)‘‘۔ ویسے جب حقیقی سجدے سے قاصر ہوتو قیام ساقط ہوجائے گا، شمس الاَئمہ امام محمد بن احمد سرخسی مُتوفّٰی 483ھ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ اور اگر (نمازی) قیام کرنے کی طاقت رکھتا ہو، لیکن رکوع اور سجود کرنے سے عاجز ہو، تو وہ بیٹھ کر اشارے کے ساتھ نماز پڑھے گا اور اس پر قیام ساقط ہوجائے گا،(اَلْمَبْسُوط لِلسَّرخْسِی ، جلد 1،ص:213)‘‘۔
یہ اس لیے کہ عبادت کی حقیقت اور روح اللہ تعالیٰ کے حضور ’’اَقْصٰی غَایَۃ التّذلُّل‘‘ یعنی انتہائی درجے کی تواضع اور پستی ہے اور اس سے بیٹھنے کی حالت زیادہ مناسبت رکھتی ہے، مزید یہ کہ مساجد میں کرسیوں کا شعار زیادہ تر بیسویں صدی کے آخری عشرے سے رائج ہوا ہے، اس سے پہلے مساجد میں کرسیاں نھیں ہوتی تھیں اورہر طرح کے معذور لوگ بہر حال مساجد میں نماز پڑھتے تھے۔
دعا ہے: اللہ تعالیٰ ہم سب کو زندگی کے آخری مرحلے تک حقیقی سجدے کی سعادت سے محروم نہ رکھے، کیونکہ بندہ نماز میں جس حالت میں اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے، وہ حالتِ سجدہ ہے، حدیث پاک میں ہے: ترجمہ:’’ بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب سجدے کی حالت میں ہوتا ہے، لہٰذا تم (سجدے میں) خوب دعا کیا کرو،(صحیح مسلم:482)‘‘(واللہ اعلم بالصواب)
اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔
darululoomnaeemia508@gmail.com