اسلام آباد(مہتاب حیدر) فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے لائف اسٹائل مانیٹرنگ سیل نے بیس سے زیادہ ایسے کیسز کا پتا لگایا ہے جو کروڑوں روپے کے اثاثوں، گاڑیوں، کثرت سے بیرون ملک سفر کرنے اور سوشل میڈیا پر پرتعیش طرز زندگی کی نمائش کر رہے ہیں لیکن اپنے جمع کرائے گئے انکم ٹیکس گوشواروں میں نہ ہونے کے برابر آمدنی یا اثاثے ظاہر کرتے ہیں۔
ان بیس کیسز میں سے تین نمایاں مثالیں ہیں اور ان کے طرزِ زندگی کی تفصیلات سے پتا چلتا ہے کہ جنوبی پنجاب کے ایک شخص کی ملکیت میں 19 پرتعیش اور جدید ماڈل کی گاڑیاں ہیں جن کی مجموعی مالیت 62کروڑ 40لاکھ روپے بنتی ہے۔ تاہم اس نے مالی سال 2020 کے اپنے گوشواروں میں صرف ایک گاڑی ظاہر کی تھی جس کی مالیت 10لاکھ روپے بتائی گئی تھی۔
مالی سال 2021، 2022، اور 2023 میں، اس نے 30لاکھ 75ہزار روپے مالیت کی ایک ٹویوٹا یارس گاڑی ظاہر کی، لیکن مالی سال 2024 کے گوشواروں میں گاڑی کی ملکیت کے خانے میںN/A (قابل اطلاق نہیں) درج کر دیا۔ ایک ڈیجیٹل موادبنانے والا ٹریول ولاگر بھی ان کیسز میں شامل ہےجس نے 2020ءسے 2025ء کے دوران اسپین ‘نیدرلینڈز‘اٹلی ‘سوئٹزر لینڈ‘متحدہ عرب امارات‘سویڈن ‘ڈنمارک ‘یونان ‘ ترکی ‘فرانس سمیت دنیابھرکے دورے کئے لیکن جب ایف بی آر نے اس کے ریٹرنز کی جانچ کی تو پتہ چلا کہ اس نے صرف 4,90,800 روپے آمدنی ظاہر کی، 3,90,000 روپے اخراجات اور 10 لاکھ 90ہزار روپے اثاثے ظاہر کیے۔
ایک اور مثال میں ایف بی آر کے لائف اسٹائل مانیٹرنگ سیل نے 18 کروڑ 5 لاکھ روپے کے چھپے ہوئے اثاثے دریافت کیے ہیں۔یہ شخص جنوبی پنجاب کے ایک سیاسی خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔
ان انٹیلی جنس رپورٹس کی تفصیلات ملک بھر میں متعلقہ ریجنل ٹیکس پیئر آفس کے ساتھ شیئر کر دی گئی ہیں، اور ٹیکسوں کی وصولی کے لیے کارروائی کرنے کی قانونی کارروائی پہلے ہی شروع ہو چکی ہے۔
تفصیلات کے مطابق، (ان کیسز میں) ایک ڈیجیٹل مواد بنانے والا اور ٹریول وِلاگر شامل ہے، اور ایف بی آر کو عوامی سطح پر دستیاب انسٹاگرام مواد کے ذریعے پتا چلا کہ یہ وِلاگر 2020 سے 2025 کے مالی سالوں کے دوران کثرت سے پرتعیش بین الاقوامی سفر میں مصروف رہا۔
2020 میں، اس نے سیشلز (ایک استوائی جزیرے کی چھٹیوں کے لیے مشہور مقام) کا سفر کیا، لیکن 2021 میں کوئی بین الاقوامی سفر ریکارڈ نہیں کیا گیا (جس کی وجہ غالباً کووڈ19 کی پابندیاں تھیں۔)۔ 2022 میں، اس شخص نے متعدد سفر کیے تھے، جن میں متحدہ عرب امارات (دبئی)، فلپائن، اسپین، اور نیدرلینڈز شامل ہیں۔
مالی سال 2023 میں، اس شخص نے ترکیہ، برطانیہ، مالدیپ اور جارجیا کا سفر کیا۔ 2024 میں، اس شخص نے یورپ اور مشرق وسطیٰ کے وسیع دورے کیے، جن میں سعودی عرب (متعدد دورے، جو غالباً حج/عمرہ یا کسی تقریب کے لیے تھے)، کروشیا، اٹلی، پرتگال، ہنگری، فرانس، بیلجیئم (جہاں ٹومارو لینڈ میوزک فیسٹیول میں شرکت کی)، اور سوئٹزرلینڈ شامل ہیں۔ 2025 کے اس حصے میں، اس شخص نے اپنے کثرت سے سفر کو جاری رکھا اور سویڈن، ڈنمارک، یونان، سعودی عرب، فرانس، آسٹریا، اور چیک ریپبلک کے دورے کیے۔
جب ایف بی آر نے اس کے جمع کرائے گئے گوشواروں کی جانچ پڑتال کی تو پایا کہ اس نے سیشلز کے پرتعیش تعطیلات پر خرچ کرنے کے ثبوت کے باوجود صرف 4 لاکھ 90 ہزار 800 روپے کی آمدنی، 3 لاکھ 90 ہزار روپے کے اخراجات، اور 10 لاکھ 90 ہزار 800 روپے کے خالص اثاثے ظاہر کیے تھے۔
مالی سال 2021 میں، 5 لاکھ 41 ہزار 880 روپے کی ظاہر کردہ آمدنی، 3 لاکھ 85 ہزار روپے کے ظاہر کردہ اخراجات، اور سال کے اختتام پر 12 لاکھ 32 ہزار 680 روپے کے خالص اثاثے ظاہر کئے گئے تھے، تاہم کووڈ کی پابندیوں کی وجہ سے سفر کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
2022 میں، ظاہر کردہ آمدنی 5 لاکھ 64 ہزار 40 روپے تھی اور ظاہر کردہ اخراجات 3 لاکھ 96 ہزار روپے تھے، جبکہ خالص اثاثے تقریباً 13 لاکھ 87 ہزار 720 روپے کے لگ بھگ تھے۔ 2023 میں، ظاہر کردہ آمدنی 7 لاکھ 84 ہزار 600 روپے تھی، لیکن اخراجات 4 لاکھ 80 ہزار روپے دکھائے گئے، اور سال کے اختتام تک خالص اثاثے 16 لاکھ 72 ہزار 320 روپے ظاہر کیے گئے۔
مالی سال 2024 کے جمع کرائے گئے گوشوارے میں ظاہر کردہ آمدنی 8 لاکھ 16 ہزار 800 روپے دکھائی گئی ہے، جبکہ اخراجات 5 لاکھ 4 ہزار روپے تک ہوئے، اور سال کے اختتام پر خالص اثاثے 19 لاکھ 29 ہزار 120 روپے رہے۔ یہ سب متعدد غیر ملکی دوروں کے ثبوت کے باوجود ہے۔ یہ صورتحال آمدنی کو بڑی حد تک چھپانے کی نشاندہی کرتی ہے۔
دوسری نمایاں مثال میں، ایف بی آر کے لائف اسٹائل مانیٹرنگ سیل نے 180.5 ملین روپے کے چھپائے گئے اثاثوں کا پتا لگایا ہے۔ یہ شخص جنوبی پنجاب کے ایک سیاسی خاندان سے تعلق رکھتا ہے، اور عوامی سطح پر دستیاب شواہد سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی ملکیت اور استعمال میں چار قیمتی گاڑیاں پائی گئیں، لیکن انہیں نہ تو اس کے اپنے ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کیا گیا اور نہ ہی اس کے والد کے گوشواروں میں ان کا اعلان کیا گیا۔
ان اثاثوں میں لیکسس ایل ایکس 570 فلیگ شپ لگژری ایس یو وی ماڈل 2019 شامل ہے، جس کی تخمینہ شدہ مارکیٹ ویلیو 8 کروڑ روپے ہے۔ اس کے علاوہ ٹویوٹا فارچیونر لیجنڈر ایس یو وی جس کی قیمت 1کروڑ 50لاکھ روپے ہے، سوزوکی ہایابوسا (2021) اعلیٰ کارکردگی والی سُپر بائیک ہے جس کی قیمت 55 لاکھ روپے ہے، اور بی ایم ڈبلیو آئی 7 الیکٹرک لگژری سیڈان شامل ہے جس کی مارکیٹ قیمت 8 کروڑ روپے ہے۔
جب ایف بی آر نے جمع کرائے گئے ٹیکس گوشواروں کی جانچ پڑتال کی تو پتا چلا کہ ٹیکس دہندہ 12-01-23 کو رجسٹرڈ ہوا تھا۔ مالی سال 2023 کے گوشواروں میں، صرف دو موٹر سائیکلیں ظاہر کی گئیں، جن میں بی ایم ڈبلیو ایم 1000 آر آر جس کی قیمت 14.2 ملین روپے تھی، اور ایک بی ایم ڈبلیو آر 1250 جی ایس شامل تھی جس کی قیمت 9.8 ملین روپے تھی۔
کل ظاہر کردہ مالیت 31.28 ملین روپے بنتی ہے۔ مالی سال 2024 کے گوشواروں میں، صرف ایک ہی موٹر سائیکل یعنی وہی بی ایم ڈبلیو ایم 1000 آر آر ظاہر کی گئی تھی۔ جبکہ بی ایم ڈبلیو 1250 جی ایس اب فہرست میں شامل نہیں تھی۔ ایف بی آر کی تحقیقات نے یہ ظاہر کیا ہے کہ ٹیکس دہندہ نے اپنی دولت صرف اس کے اصل نظر آنے والے اثاثوں کے ایک معمولی حصے کے برابر ہی ظاہر کی ہے۔
اس شخص نے چھپائی گئی گاڑیوں کی خریداری میں استعمال ہونے والے فنڈز کے ذرائع کو ظاہر نہیں کیا۔ یہ طرزعمل واضح طور پر ٹیکس چوری کی نشاندہی کرتا ہے۔ تیسری مثال میں، چھپائے گئے اثاثوں کی مالیت کا اندازہ 624 ملین روپے لگایا گیا ہے۔ ایف بی آر کو ایسے شواہد ملے ہیں کہ اس ٹیکس دہندہ کی ملکیت اور استعمال میں 19 گاڑیاں تھیں، جن میں اسپورٹس کاریں، پرتعیش ایس یو ویز ، آف روڈ ٹرکس، موٹر سائیکلیں، اور ایک اے ٹی وی شامل ہیں۔
ایف بی آر کے لائف اسٹائل مانیٹرنگ سیل نے پایا ہے کہ ٹیکس دہندہ کی ملکیت اور استعمال میں شیورلیٹ کورویٹ سی 8 (سٹرنگرے) ماڈل 2020 گاڑی تھی، جس کی مارکیٹ قیمت 80 ملین روپے بنتی ہے، یاماہا ریپٹر 700 آر اے ٹی وی، جو کہ اعلیٰ کارکردگی کی حامل، تمام زمینوں پر چلنے والی کواڈ بائیک(700 سی سی)ہے اور مارکیٹ قیمت 6.5 ملین روپے بنتی ہے، ہارلے ڈیوڈسن پین امریکہ پرتعیش ایڈونچر ٹورنگ موٹر سائیکل (1250 سی سی) جس کی قیمت 15 ملین روپے بنتی ہے۔
ہونڈا سی ڈی 200 روڈ ماسٹر موٹر سائیکل جس کی قیمت 5 لاکھ روپے بنتی ہے، شیورلیٹ سِلوراڈوجس کی قیمت 4 کروڑ روپے بنتی ہے، ٹویوٹا ہائی لکس ریوو کی دو یونٹس(2.4 لیٹر ڈیزل) ڈبل کیبن والی، جن کی مجموعی قیمت 40 ملین روپے بنتی ہے، ٹویوٹا ایف جے کروزر جس کی قیمت 15 ملین روپے بنتی ہے، فورڈ ایف-150 ریپٹر جس کی قیمت 70 ملین روپے بنتی ہے، ٹویوٹا لینڈ کروزر 70 سیریز جس کی قیمت 5 ملین روپے بنتی ہے، ٹویوٹا لینڈ کروزر 70 سیریز پک اپ جس کی قیمت 40 لاکھ روپے بنتی ہے۔
ٹویوٹا 4 رنر (4X4 ایس یو وی) جس کی قیمت 60 ملین روپے بنتی ہے، ٹویوٹا لینڈ کروزر 300 سیریز جس کی قیمت 90 ملین روپے بنتی ہے، رینج روور جس کی قیمت 80 ملین روپے بنتی ہے، آڈی کیو 7 جس کی قیمت 30 ملین روپے بنتی ہے، ٹویوٹا ٹنڈرا جس کی قیمت 25ملین روپے بنتی ہے، ٹویوٹا ٹاکوما جس کی قیمت 15ملین روپے بنتی ہے، ٹویوٹا لینڈ کروزر 200 سیریز جس کی قیمت 40 ملین روپے بنتی ہے، ٹویوٹا لینڈ کروزر 100سیریز جس کی قیمت 25 ملین روپے بنتی ہے، اور مرسڈیز بینز (سیڈان) جس کی قیمت 9 ملین روپے ہے۔
ایف بی آر نے پایا ہے کہ ان پرتعیش گاڑیوں میں سے کوئی بھی ٹیکس دہندہ کے اثاثوں کے گوشوارے میں ظاہر نہیں کی گئی ہے۔ رابطہ کرنے پر ایف بی آر کے لائف اسٹائل مانیٹرنگ سیل کے انچارج نے بتایا کہ ٹیکس چوری کے ممکنہ مرتکب افراد کے خلاف تحقیقات جاری ہیں، لیکن انکم ٹیکس کے قوانین کے تحت وہ ان کی شناخت ظاہر نہیں کر سکتے۔