طالبان ایک کے بعد ایک علاقہ روندتے ہوئے جب کابل پہنچ رہے تھے تو حامد کرزئی ایوان صدر سے چند کلو میٹر دور اپنے گھر میں پاور نیپ لے رہے تھے۔وہ صدر اشرف غنی کو یہ کہہ کر سوئے تھے کہ مزاحمت کی ضرورت نہیں ہے۔قطر کے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں مشورے اور معاہدے ہوچکے ہیں۔جو ہونا ہے وہ ہوکر رہے گا۔انہوں نے باقی سیاسی قوتوں کو بھی یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ دیکھو عورتوں کی تعلیم، جمہوریت اور کسی بھی طرح کی اصولی سیاست ہمارا بنیادی مسئلہ نہیں ہے۔بنیادی مسئلہ استحکام ہے اور استحکام تب ہی آئے گا جب مقامی لوگوں کی کوئی حکومت دیر تک اور دور تک چلے گی۔طالبان بہرحال مقامی لوگ ہی ہیں۔ہم سب کو ملکر انکے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ہمیں ایسے ماحول کی طرف بڑھنا چاہیے جہاں ہم قومی سرگرمیوں میں باقی طبقوں، برادریوں اور جماعتوں کو شامل کرسکیں۔اگر یہ ہدف حاصل کرنے میں ہم کامیاب ہوجاتے ہیں تو باقی بیڑے خود ہی پار لگ جائیں گے۔
طالبان آئے تو یہی محسوس ہوا کہ کرزئی فارمولے پر سفر کا آغاز ہوگیا ہے۔پڑوسی ممالک کے ساتھ انہوں نے بات چیت کا سلسلہ شروع کردیا۔بین االاقوامی این جی اوز کے بند دفاتر دوبارہ کھول دیے۔آغا خان فائونڈیشن کے دفاتر بھی پہلے سے زیادہ نفری کے ساتھ کھلوا لیے۔قومی کرکٹ ٹیم کو بحال کردیا۔گورنروں کو عاشورہ کے جلوسوں میں بھیج کر شیعہ برادری کو رواداری کا پیغام دیا۔چین، ترکی، انڈیا اور جاپان کے ساتھ معاشی اور اقتصادی معاہدوں پر دستخط کیے۔سیاحوں کو اپنی طرف راغب کیا اور آئندہ مزید سہولیات فراہم کرنے کا یقین بھی دلایا۔روس سے بات چیت کرکے نہ صرف یہ کہ اپنا نام بلیک لسٹ سے نکلوایا بلکہ افغانستان میں کھلی سرمایہ کاری کا وعدہ بھی لیا۔اس سفر سے بھلا کس کو کیا مسئلہ ہوسکتا تھا؟ آس پڑوس میں سب خوش تھے۔اس لیے بھی خوش تھے کہ افغانستان کا استحکام پورے خطے کا استحکام ہے۔ اقبال کا احساس بھی یہی تھا
آسیا یک پیکر آب و گل است
ملت افغاں در آں پیکر دل است
از فساد او فساد آسیا
از کشاد او کشاد آسیا
کہتے ہیں، ایشیا پانی اور مٹی کا ایک پیکر ہے۔افغانستان اس کا دل ہے۔یہاں سلامتی ہے تو سمجھو ایشیا میں سلامتی ہے۔ یہاں بگاڑ ہے توسمجھو پورے ایشیا میں بگاڑ ہے۔مرجھائے ہوئے اس دل کے چاروں وال بحال کرنے کیلئے ٹوٹکوں اور نسخوں کا اچھا استعمال ہو رہا تھا، مگر ایک کم بختی ہوگئی۔ابھی ایک بھی وال بحال نہیں ہوا تھا کہ دل نے کھیلن کو چاند مانگ لیا۔کہتا ہے، اٹک تک کے سارے علاقے میرے ہیں۔کرلو بات۔منہ میں دانت نہیں پیٹ میں آنت نہیں اور شنواری کڑاہی ڈھونڈنے نکل گئے۔طالبان اپنی سرزمین سے محبت کا بیانیہ بھی تشکیل دے سکتے تھے، مگر انہوں نے دوسرے کی سرزمین سے نفرت کا بیانیہ تخلیق کردیا۔سرحد کی دوسری طرف ٹی ٹی پی، پی ٹی ایم اور پی ٹی آئی کے قبائلی کارکنوں کو ایک ہی ہلے میں شکار کرنے کیلئے اسلامائزڈ پشتون نیشنل ازم کا جال بھی پھینک دیا۔ واخان سے چمن تک ہر طرح کی گرمی پیدا کردی۔کیا حالات ایسی کسی بھی گرمی اور سرگرمی تقاضا کر رہے تھے؟ شاید بابا کرزئی یہ بتانا بھول گئے تھے کہ دوسرے مسائل کی طرح ڈیورنڈ لائن بھی ہمارا بنیادی مسئلہ نہیں ہے۔
عقلمندی کا تقاضا تو یہ تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ طالبان ملک سے باہر بیٹھے افغان رہنمائوں سے رابطے بڑھاتے۔انہیں کاروبار مملکت میں کسی طور شامل کرکے قومی ہم آہنگی کا ماحول بناتے۔انہوں نے مگر چٹل کارتوس چلاکر حالات کو اپنی مخالف افغان قوتوں کے حق میں موڑ دیا۔ بیرونی مداخلت اور داخلی انتشار کے امکان کو بڑھا دیا۔ایسے کون کرتا ہے بھلا؟ دکھ یہ نہیں ہے کہ اس سب کے نتیجے میں طالبان حکومت خطرے میں پڑ جائے گی۔غم یہ ہے کہ داخلی استحکام والے غنچے بن کھلے مرجھا جائیں گے۔
استحکام کا خواب اس لئے بھی خطرے میں ہے کہ طالبان کی اپنی صفوں میں موجود تقسیم کی لکیر ڈیورنڈ کی لکیر سے زیادہ خطرناک شکل اختیار کرچکی ہے۔ ایک طرف وزیرداخلہ سراج حقانی ہیں۔ عقل کی بات کرتے ہیں۔ یونیورسٹی کے گریجویٹس کی ذہانت پر بھروسہ کرتے ہیں۔بااثر افغان شخصیات کو کاروبار مملکت میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔دینی امور کو قانون کے زور پر نافذ کرنے کی بجائے ابلاغ کے راستے پر زور دیتے ہیں۔سفارتی ادب آداب پر زور دیتے ہیں۔نئے قومی پرچم کی بجائے پرانے پرچم کو کافی سمجھتے ہیں۔ یہ عقل کی باتیں ہیں اور پہاڑ سے اترے ہوئے لڑاکے عقل کی بات پر شک کرتے ہیں۔ وہ ملا ہیبت اللہ جیسے خشک میووں پر بھروسہ کرتے ہیں۔ہیبت اللہ سمجھتے ہیں ہمیں نصرت مولا نے دی ہے، اب مملکت کا نظام بھی وہی چلائے گا۔ہم تو بس میلس (مجلس) کریں گے، شنی چائے پئیں گے اور جب دل کرے گا انٹرنیٹ بند کریں گے۔
ملاعمر کے بیٹے ملا یعقوب بھی حقانی کی طرح کشادہ دماغ رکھتے ہیں، مگر وہ اس زعم میں رہنا پسند کرتے ہیں کہ افغانستان سلطنتوں کا قبرستان ہے۔جتنے وہ سمجھدار ہیں انہیں اس بات پر فکرمند ہونا چاہیے تھا۔برطانیہ نے افغانستان کو ریت کی حفاظتی بوری کی طرح روس کے سامنے رکھا۔روس اور امریکا موجود رہے، افغانستان قبرستان بن گیا۔سرمایہ داروں اور اشتراکیوں نے اپنی فیصلہ کن جنگ لڑنے کیلئے افغانستان کومیدان بنایا۔سب موجود رہے، افغانستان قبرستان بن گیا۔خطے میں اپنے مفادات کو تحفظ دینے کیلئے امریکا نے افغانستان کو مورچہ بنایا۔امریکا اسی طرح موجود ہے، افغانستان قبرستان بن گیا۔
اب طالبان براہ راست جنگ میں ہزیمت اٹھانے والے بھارت کو افغان سرزمین فراہم کرنا چاہتا ہے۔ یہ جنگ اگر شروع ہو جاتی ہے تو انجام کیا نکلے گا؟ یہ غلطی چونکہ پرانی ہے تو انجام بھی پرانا ہی نکلے گا۔ انڈیا پاکستان اپنی جگہ موجود رہیں گے اور افغانستان قبرستان بن جائے گا۔افغانستان کو قبرستان بناکر تو بہت دیکھ لیا۔ کیا حرج ہے اگر ایک بار قبرستان کو افغانستان بناکر بھی دیکھ لیا جائے؟ کیا حرج ہے۔