حکمراں لیبر پارٹی کی رکنِ پارلیمنٹ لیوسی پاؤل کو پارٹی کی نئی ڈپٹی لیڈر منتخب کر لیا گیا، یہ انتخاب گزشتہ ماہ اینجیلا رینر کے استعفے کے بعد عمل میں آیا۔
مانچسٹر سینٹرل سے تعلق رکھنے والی رکنِ پارلیمنٹ نے تعلیم کی سیکریٹری برجٹ فلپسن کو شکست دی۔
انہوں نے انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ وہ پارٹی کے عام کارکنوں کی آواز کو زیادہ مضبوط بنائیں گی اور حکومت میں ’اصلاحی سمت‘ اختیار کرنے کے لیے کام کریں گی۔
پاؤل، جنہیں ستمبر میں کابینہ سے برطرف کیا گیا تھا، کو ان اراکین کی حمایت حاصل رہی جو وزیرِاعظم سر کیئر اسٹارمر کی قیادت میں حکومت کی موجودہ پالیسیوں سے ناخوش ہیں۔
انتخابات میں لیوسی پاول نے 87,407 ووٹ حاصل کیے، جو فلپسن سے تقریباً 14 ہزار ووٹ زیادہ تھے، ووٹر ٹرن آؤٹ 16.6 فیصد رہا۔
فتح کے بعد اپنے خطاب میں لیوسی پاؤل نے وزیرِاعظم کو ’ہمارے لیبر اقدار کے محافظ اور اتحادی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ کیئر اور ہماری حکومت کی کامیابی کے لیے کام کریں گی، تاہم پارٹی کو اپنے کام کرنے کے طریقوں میں تبدیلی لانا ہو گی تاکہ حالات کو بہتر بنایا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ وہ اپنی نئی حیثیت میں ان آوازوں کو پارٹی کے مرکز تک پہنچائیں گی جو سمجھتی ہیں کہ حکومت کافی جرأت مندانہ اقدامات نہیں کر رہی۔
ان کا کہنا تھا کہ میں لیبر کی اقدار اور جرأت کی نمائندہ بنوں گی اور جانتی ہوں کہ کیئر بطور لیڈر یہی چاہتے ہیں، میں اس جدوجہد میں ان کی اتحادی رہوں گی۔
لیوسی پاؤل نے اپنی تقریر میں ریفارم یوکے پارٹی پر بھی تنقید کی، ان کا کہنا تھا کہ ہمیں سیاسی بیانیہ دوبارہ حاصل کرنا ہوگا کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے (نائجل) فراج اور اس جیسے لوگوں کو اس پر قابض ہونے دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ لیبر پارٹی ریفارم پارٹی کی نقل کر کے عوامی حمایت حاصل نہیں کر سکتی۔
ڈپٹی لیڈرشپ کی دوڑ میں ابتدا میں 6 امیدوار شامل تھے، مگر جلد ہی مقابلہ پاؤل اور فلپسن تک محدود رہ گیا، جبکہ فلپسن کو حکومتی لیڈرشپ کا پسندیدہ امیدوار سمجھا جا رہا تھا۔
یہ انتخاب اینجیلا رینر کے ڈرامائی استعفے کے بعد عمل میں آیا، جنہوں نے ایک جائیداد کی خریداری پر ٹیکس کی کمی کا اعتراف کیا تھا۔
اگرچہ سر کیئر اور رینر کے تعلقات میں کبھی کبھار تناؤ پایا گیا، تاہم وہ حکومت میں ایک کلیدی کردار ادا کر رہی تھیں۔
واضح رہے کہ کابینہ کے برعکس، لیبر پارٹی کا ڈپٹی لیڈر پارٹی کے ارکان کے ووٹوں سے منتخب ہوتا ہے، وزیرِاعظم کے تقرر سے نہیں۔
اب لیوسی پاؤل پارٹی کی نیشنل ایگزیکٹو کمیٹی کی رکن کے طور پر کام کریں گی اور انہیں لیبر کی ’چیف کیمپینر‘ کا کردار دیا گیا ہے۔
دریں اثناء سابق برطانوی وزیر لیوسی پاؤل نے کہا ہے کہ لیبر پارٹی کو حکومت میں کارکردگی بہتر بنانے کے لیے اپنے اندازِ حکمرانی میں تبدیلی لانا ہو گی۔
پاؤل، جنہیں ستمبر میں وزیرِاعظم کئیر اسٹارمر کی کابینہ سے برطرف کیا گیا تھا، نے عندیہ دیا ہے کہ وہ دوبارہ حکومتی عہدہ قبول نہیں کریں گی تاکہ پارٹی کی سمت کے بارے میں کھل کر اظہارِ خیال کرسکیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ اب بھی اسٹارمر اور حکومت کی کامیابی چاہتی ہیں، تاہم پارٹی کو اپنے طریقۂ کار میں تبدیلی لانا ہوگی تاکہ حالات کو بہتر کیا جا سکے۔
اپنے حامیوں کے نام ایک پیغام میں لیوسی پاؤل نے کہا کہ لیبر پارٹی کو اپنی تحریک، برادریوں اور کام کی جگہوں سے زیادہ جڑنے کی ضرورت ہے، ہمیں زیادہ اصولی، دور اندیش اور اپنی اقدار سے رہنمائی حاصل کرنے والی سیاست اختیار کرنی چاہیے، بجائے اس کے کہ وقتی حکمتِ عملیوں پر انحصار کریں۔
ان کے یہ بیانات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب پارٹی کے اندر حکومت میں کارکردگی اور کارکنوں سے رابطے کے فقدان پر بحث جاری ہے۔