ائیرپورٹ سے نکلتے ہی پہلی نظر حیدر عباس رضوی پر پڑی۔ قابل لوگوں کا وقت ضائع کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔گزرگیا۔پھردل نے کہا،حیدر بھائی کوسلام نہ کیا تو کراچی والی پیاس بجھ نہیں پائیگی۔لوٹ آیا۔حیدر بھائی کی ہرادا سے کراچی جھلکتا ہے۔گم ہوجاتے ہیں تولگتا ہےکراچی گم ہوگیا ہے۔بولتے ہیں تولگتا ہے کراچی بول پڑا ہے۔حیدر بھائی کی ایم اے کی ڈگریاں ایم کیو ایم کے دھڑوں سے زیادہ ہیں۔کمال کے حرف شناس ہیں۔پچھلے دنوں غالب کی زمین پر اترگئے۔پھرجونہیں کہا جاسکتا تھا وہ سب کہہ گئے۔تین شعرملاحظہ ہوں۔ میں حصارانا کا قیدی ہوں/مرے حق میں دعا کرے کوئی/دم جوگھٹنے لگے خموشی میں/چیخ کر رولیا کرے کوئی/اپنا سب کچھ لگا ہے دائو پر/کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
ائیرپورٹ گزرجاتا ہے توڈرگ روڈ کاپرانا اسٹیشن آجاتا ہے۔اسٹیشن کی خالی بینچ مجھے کھینچتی ہے۔آپکو بھی کھینچتی ہوگی۔ریل کی آمد اور روانگی وصل اور فراق کی نقدکہانی ہے۔ریل سانس کھینچتی ہے اسٹیشن خالی ہوجاتا ہے۔ریل سانس چھوڑتی ہے اسٹیشن بھرجاتا ہے۔ان دو وقفوں کے بیچ ایک طرح کی وحشت بھی بولتی ہے۔ ریل کی سیٹی میں ایک بات ہے۔ ریل کی سیٹی کے نام سے حسن معراج کی ایک کتاب بھی ہے۔اس کتاب میں بھی ایک بات ہے۔ریل کے ارد گرد بہت کچھ لکھا گیا ہے۔نظمیہ بھی نثریہ بھی۔طربیہ بھی المیہ بھی۔مگر منیرنیازی نے کہانی سمیٹ کر رکھ دی۔صبح کاذب کی ہوا میں درد کتنا تھا منیر،ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھرگیا۔دل لہو سے بھرجاتا ہے جب ڈرگ روڈ کے بعد کارسازآجاتا ہے۔دھیان کتنا بھی بٹالوں وہ منظر سامنے آہی جاتا ہے جب بی بی شہید کے ٹرک کے سامنے دھماکہ ہوا تھا۔ دھواں تھا، چیتھڑے تھے اورچیخ وپکار تھی۔بی بی بچ گئیں مگر 27دسمبر تک۔دسمبر سے اب ڈر لگتا ہے۔ یہ سانحوں کا مہینہ ہے۔ کارساز سے نرسری پہ چڑھنے لگو تو فضائیہ کامیوزیم آتا ہے۔نرسری پرچڑھو تو بحریہ کامیوزیم آجاتا ہے۔ ہمارے پاس انٹرٹینمنٹ کیلئے توپ و تفنگ ہی رہ گئے ہیں۔سینما رہے نہ کھیل کے میدان رہے۔ نرسری کے کونے پرنیشنل اسٹیڈیم توآتا ہے مگر اب نیشنل اسٹیڈیم میں کوئی نہیں آتا۔ اسی لئے افریقی ٹیم کیساتھ یہاں کوئی میچ نہیں رکھا گیا۔ جوشہررات بھرجاگتا ہے،راشد لطیف اورمعین خان کی جہاں اکیڈمیاں ہیں،وسیم اکرم ،یونس خان، سرفراز اور شاہدآفریدی جہاں رہتے ہیں،وہ شہراسٹیڈیم نہیں جاتا۔کمال ہے۔اسماعیلیوں کے موجودہ امام شاہ رحیم نے کھیلوں کوترجیحات میں شامل کیا ہے۔شاہ رحیم نے اس سال شکاگو میراتھن میں حصہ بھی لیا ہے۔ہمیں ایسے ہی پیشوا چاہئیں۔نیشنل اسٹیڈیم کے سامنے لال اینٹوں والا خوبصورت احاطہ آغا خان اسپتال کا ہے۔ صحت کا مرکز تعلیم کا گہوارہ۔یہ شاہ کے پرکھوں نے ہی بنایا تھا۔وہ کہتے تھے،محرومیاں لاتعلقی کوجنم دیتی ہیں۔آغاخان اسپتال سے آگے سوئی سدرن کی عمارت کو دیکھ کربلوچوں کومحرومیاں ہی تویاد آتی ہیں۔پھروہ لاتعلق ہوجاتے ہیں۔وہ سامنے پرانی سبزی منڈی کے پاس دعوت اسلامی کا مرکز ہے۔مجھے جج مت کرنا پلیز، مگر مجھے پپا جانی (الیاس قادری) اچھے لگتے ہیں۔بہت کیوٹ ہیں۔میمنی لہجے میں انکی سیدھی سادی باتیں کاٹھیاواڑی چھولے جیسا مزا دیتی ہیں۔دائیں جانب گلشن اقبال ہے۔ایک باغ میں پی آئی اے کا ڈمی طیارہ کھڑا ہے۔بچپن میں کسی نے پڑھا دیا تھا کہ یہ وہی طیارہ ہے جو مرتضی بھٹو کی الذوالفقارنے ہائی جیک کیا تھا۔مرتضی کا بیٹا ذوالفقارجونیئر سیاست میں اتررہا ہے۔ذوالفقار آرٹسٹ بھی ہے۔ہرآرٹسٹ ایک شہ پارہ تخلیق کرنے کیلئے پیدا ہوتا ہے۔جیسے بھوپال کے اسدمحمد خان باسودے کی مریم لکھنے کیلئے بھیجے گئے تھے۔اسد محمد خان جہاز کے بالکل سامنے والی عمارتوں میں سے ایک میں رہتے ہیں۔انکی پچھلی گلی میں وسعت اللہ خان رہتے ہیں۔نثر میں سہل ممتنع اگرکوئی چیزہے تو یہ عطا الحق قاسمی صاحب کے بعد وسعت اللہ خان کے ہاں پائی جاتی ہے۔انکی بات گلشن اقبال اورلالوکھیت والوں کو برابر پہنچتی ہے۔لالوکھیت گلشن کے بعد ہی آتاہے۔یہ لو آ گیا۔یہاں ایوب کیخلاف مزاحمت ہوئی تھی۔ سن چونسٹھ والے مہاجر پشتون فسادات اسی مزاحمت کی سزا تھی۔تاجدارحرم والے صابری برادران یہیں رہتے تھے۔کرخنداری زبان کا لہجہ یہاں کسی حد تک سنائی دیتا ہے۔یہ کارخانوں کی زبان تھی جو پرانی دلی میں بولی جاتی تھی۔کچھ ایسی ہی تاریخ بیگماتی زبان کی بھی ہے۔ناظم آباد کی پرانی عورتوں کے ہاں اس زبان کا چسکا ملتا ہے۔ناظم آباد کی کیا ہی بات ہے۔یہ خواجہ ناظم الدین کی بسائی ہوئی بستی ہے۔مجنوں گورکھپوری اورصادقین کی بستی ہے۔آف دا اسکول والوں کے ساتھ ناظم آباد پر کی گئی احمد جاوید صاحب کی گفتگو کمال ہے۔وہ خودناظم آباد میں رہے ہیں۔یہاں کبھی انورشعور بھی رہتے تھے۔اب پتہ نہیں کہاں رہتے ہوں گے۔ان کا شعر یہاں ادارتی صفحے پر چھپتا ہے۔منگل والے دن اکثر میرے کالم کے چوکٹے میں آجاتا ہے۔غالب کی طرح خوش ہوجاتا ہوں۔وہ آئے ہمارے گھر قدرت خدا کی ہے۔ابھی پیچھے ناظم آباد کے پہلے موڑ پرغالب لائبریری گزری ہے۔اسکی بنیاد مرزا ظفرالحسن نے فیض احمد فیض کے ساتھ ملکر رکھی تھی۔فیض صاحب ایک عرصہ کراچی میں رہے اورلیاری میں جیے۔تب لیاری کے ڈھابے دانش کدے ہوا کرتے تھے۔محنت کش چیخوف اور کافکا پڑھتے تھے۔لینن اور ٹراٹسکی کی باتیں کرتے تھے۔غوث بخش بزنجو اورصبا حسن دشتیاری یہیں ہوتے تھے۔ فٹبال،باکسنگ، تھیٹر،ممنوعہ لٹریچر، موسیقی اورعورت کی خودمختاری یہاں کی پہچان تھی۔یہ ترقی پسند لوگ تھے۔ترقی پسند رسالے طلوع افکار کادفتر غالب لائبریری سے ذرا سا آگے گولیمار چورنگی پر ہی تو تھا۔ڈاکٹرجمیل جالبی یہیں بیٹھتے تھے۔ڈاکٹر صاحب نے پاکستانی کلچر کے نام سے کیسا شاندار کام کیا تھا۔اسلامی جدیدیت کے نام سے انہوں نے پروفیسر عزیز کی کتاب کا ترجمہ بھی کیا تھا۔کلچرل ڈائیورسٹی اور اسلامی جدیدیت کا سفرجامعہ بنوریہ میں کچھ نظر آتا ہے۔سترممالک کےطلبا یہاں پڑھتے ہیں۔یہاں اب جدید طرز کا ایک کیفے بن گیا ہے۔نام اس کا گلوبل ڈائننگ ہے۔اسکی دیوارپرلکھا ہےاس کیفے کامقصد نصابی بندشوں سے ہٹ کرعلمی و فکری مکالمہ کرنے کا ماحول فراہم کرنا ہے۔اللہ اللہ۔مکالمے کی ہی توضرورت ہے۔جامعہ کے بالکل سامنے ایک مطب ہے۔یہاں چترال کے ایک عالم بیٹھتے ہیں۔ان سے میں نے فارسی پڑھی تھی۔مطالعے کا ڈھنگ اور رواداری سیکھی تھی۔مجھے اب انکے مطب پہ جانا ہے۔مجھ سے وہی پرانا سوال کریں گے، کیا پڑھ رہے ہو؟میں کہوں گا منیر انکوائری رپورٹ پڑھ رہا ہوں۔سن کر بدمزہ نہیں ہوں گے۔اس کشادہ دل فقیر کو سب بتایا جا سکتا ہے۔