لاہور (آصف محمود بٹ)مختلف مذاہب کے اسکالرز نے متفقہ طور پر کہا ہے کہ ہم آہنگی کے لئے صرف خطبے نہیں، عمل درکار ہے۔پاکستان سول سروسز اکیڈمی (سی ایس اے) کی انٹرفیتھ ہارمنی سوسائٹی کے زیرِاہتمام بدھ کے روز منعقدہ پینل ڈسکشن میں چار بڑے مذاہب کے اسکالرز نے اس امر پر زور دیا کہ بین المذاہب ہم آہنگی کو رسمی بیانات تک محدود رکھنے کے بجائے روزمرہ رویّوں میں رحم، انصاف اور انکسار کے ذریعے جیا جائے۔ “Promoting Interfaith Harmony: Role of Different Religions” کے عنوان سے ہونے والی نشست بابا گورو نانک دیو جی کی 556ویں سالگرہ کے موقع پر منعقد کی گئی، جس میں ڈاکٹر سردار ترونجیت سنگھ بوتالیا (سکھ)، ڈاکٹر شانتی کمار (بدھ مت—سری لنکا)، ڈاکٹر ہرمن روبو (مسیحی) اور ڈاکٹر فاروق احمد رانا (مسلم) نے اظہارِ خیال کیا۔سکھ روایت کی نمائندگی کرتے ہوئے ڈاکٹر بوتالیا نے کہا کہ بابا گورو نانک دیو جی کا پیغام آفاقی اور شاملِ حال ہے۔بدھ مت کے حوالے سے ڈاکٹر شانتی کمار نے کہا کہ ہم آہنگی نافذ نہیں کی جا سکتی، اسے عمل سے پروان چڑھایا جاتا ہے۔ “۔مسیحی نقطۂ نظر پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر ہرمن روبو نے کہا کہ مسیحیت کی اساس محبت ہے“اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت کرو”۔ انہوں نے بتایا کہ انکسار اور ہمدردی مسیحی اخلاقیات کے مرکز میں ہیں، اور شہریوں و اسکالرز سے کہا کہ “دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی بات دل سے سنیں”۔اسلامی روایت کی نمائندگی کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق احمد رانا نے کہا کہ قرآنِ کریم کا حکم “دین میں کوئی جبر نہیں۔تقریب کے اختتام پر ڈائریکٹر جنرل سول سروسز اکیڈمی فرحان عزیز خواجہ نے کہا کہ بین المذاہب مکالمہ اب محض علمی مشق نہیں رہا بلکہ شہری ضرورت بن چکا ہے۔ فرحان عزیز خواجہ نے کہا کہ جو معاشرے سمجھ بوجھ اور ہمدردی میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، وہ عدم رواداری کے مقابلے میں زیادہ مضبوطی دکھاتے ہیں۔ پروگرام کے اختتام پر معزز مہمانوں کو سووینئرز پیش کیے گئے اور بابا گورو نانک دیو جی کی سالگرہ کی مناسبت سے کیک بھی کاٹا گیا۔