اسلام آباد (فاروق اقدس) 27ویں آئینی ترمیم کا مسودہ پارلیمانی کمیٹی سے منظوری کے بعد منظوری کے آخری مراحل میں داخل ہو گیا ہے۔ حکومت اسکی منظوری کیلئے انتہائی پراعتماد دکھائی دے رہی ہے 27ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے رواں ہفتے منظور ہو جائیگی ، عوام کے سامنے سرخرو ہونے کیلئے ا اپوزیشن اور غیر حکومتی ارکان کی جانب سے ایوان میں ہنگامہ آرائی اور احتجاج کے روایتی مناظر بھی دیکھنے میں آ سکتے ہیں ،صدارتی استثنیٰ کے مقابلے فیلڈ مارشل کو حاصل استثنیٰ تاحیات ہو گا‘ عدلیہ کو اس سے پہلے کبھی ایگزیکٹو کے اتنے تابع نہیں کیا گیا ،یہ آئینی ترامیم نہیں بلکہ آئینی مارشل لاء ہے‘ ایسا لگتا ہے کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر اب تینوں سروسز کو کنٹرول کرینگے ،حسین حقانی‘ محمد زبیر‘ ریما عمر‘ مصطفیٰ نواز کھوکھر اور عائشہ صدیقہ کے 27ویں ترمیم کے بارے میں سوشل میڈیا پر ریمارکس، چند معروف نام جنہوں نے ترمیم کے مسودے کے حوالے سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اپنے ریمارکس میں خاصے دلچسپ اور فکر انگیز جملے لکھے ہیں۔ امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کا کہنا ہے کہ 1962ء کے پاکستان کے آئین کے ابتدایئے میں یہ جملہ پڑھا جا سکتا ہے کہ یہ آئین فیلڈ مارشل ایوب خان نے قوم کو عطا کیا تاہم اس مرتبہ اسکی کسر باقی رہ گئی ہے۔ سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے لکھا ہے کہ اب وزیراعظم خود وفاقی آئینی عدالت کے پہلے چیف کو تعینات کرینگے اور آئینی عدالت میں ججز کا پہلا بیج بھی وزیراعظم کی ایڈوائس اور آئینی عدالت کے چیف جسٹس سے مشاورت کے بعد صدر مملکت کی جانب سے طے کیا جائیگا۔ جبکہ اس سے قبل عدلیہ کو کبھی ایگزیکٹو کے اتنے تابع نہیں کیا گیا۔ سابق سنیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے آئینی ترمیم کو آئینی مارشل لاء سے تعبیر کیا۔ قانونی ماہر ریما عمر لکھتی ہیں کہ صدارتی استثنیٰ کے مقابلے میں فیلڈ مارشل کو حاصل استثنیٰ تاحیات ہو گا۔ دفاعی امور کی تجزیہ نگار عائشہ صدیقہ نے تحریر کیا ہے کہ وزارت قانون کے مسودے سے ایسا لگتا ہے کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر اب تینوں سروسز کو کنٹرول کرینگے‘ تاہم اس طرح آپریشنل اور بیورو کریٹک پیچیدگیاں پیدا ہونگی۔ یہ آئینی ترمیم وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد سینٹ میں پیش کی گئی اور دونوں ایوانوں میں قانون و انصاف کی قائمہ کمیٹیوں میں زیر بحث بھی آئی۔ گوکہ آئینی ترمیم کی منظوری میں قانونی اور پارلیمانی امور کی پیچیدگیوں اور مشکلات اور کسی حد تک سیاسی مزاحمت کا سامنا کرنے والے وزیر قانون اعظم تارڑ کا کہنا ہے کہ ترمیم پر بحث اس وقت تک جاری رہے گی جب تک اتفاق رائے پیدا نہیں ہو جاتا۔ خواہ اس کیلئے کتنا ہی وقت کیوں نہ لگ جائے لیکن قرائن اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ اس اہم آئینی ترمیم کی منظوری جس کے بارے میں یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ اس پر عملدرآمد سے ملکی‘ عدالتی‘ آئینی اور کسی حد تک عسکری ڈھانچے میں مجوزہ تبدیلیوں سے ایسے دوررس نتائج سامنے آئیں گے جو ان اداروں کے نظام کی سمت بھی تبدیل کر سکتے ہیں۔ تاہم منظوری کیلئے دو تہائی اکثریت میں زیادہ تاخیر کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف جو اہم مصروفیات کے باعث باکو میں تھے‘ انہوں نے آئینی ترمیم کے مسودے پر مشاورت کرنے کیلئے وفاقی کابینہ کا اجلاس بلایا اور باکو سے ہی وڈیو لنک پر اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے 27ویں آئینی ترمیم کے مسودے کی منظوری دی۔ اسلئے نہ صرف ترمیم کی منظوری میں زیادہ وقت نہیں لگے گا بلکہ منظوری کے بعد عمل درآمد پر بھی کسی تاخیر کا امکان نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق منظوری کا تمام عمل رواں ہفتے ہی مکمل ہو جائیگا۔ البتہ اس دوران عوام کے سامنے سرخرو ہونے کیلئے اپوزیشن اور غیر حکومتی سیاسی جماعتوں کے ارکان ہنگامہ آرائی اور احتجاج کے روایتی منظر پیش کر سکتے ہیں۔ تاہم آئینی ترمیم کا مسودہ محض پارلیمان میں ہی نہیں بلکہ ملک کے سیاسی‘ جمہوری اور انتظامی اقدامات کے بارے میں دلچسپی رکھنے والے سنجیدہ افراد نجی محفلوں اور دفاتر کے بند کمروں میں اس حوالے سے دھیمی آوازوں میں بحث و تمحیص‘ خوش گمانیوں اور اندیشوں پر گفتگو کر رہے ہیں۔ جبکہ سوشل میڈیا کے صارفین بھی اعلانیہ طور پر خوشگوار توقعات‘ امکانات اور تنقید کا اظہار کر رہے ہیں۔