• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لفظ انقلاب سنکر کبھی مخمل اور ریشم کاخیال آتا ہے؟ مجھے تونہیں آتا۔مجھے تشدد سے بھرے ایسے منظرنامے کا خیال آتا ہے جس میں خوش دکھائی دینے والا ہرچہرہ نفرت کی علامت بن چکا ہوتا ہے۔ایسی صبح کا خیال آتا ہے جس میں کامیاب ہونے والا انقلاب خود دو دھڑوں میں تقسیم ہوچکا ہوتاہے۔ایک دھڑا وہ جو اقتدارحاصل کرلیتاہے۔دوسرا وہ جواصول کی بات کررہا ہوتاہے۔اصول والے دھڑے کو بے رحمی سے کچل کرجبر کے نئے دورکا آغاز کردیاجاتاہے۔اپنے ہی بچے توان انقلابوں نے بھی چبائے ہیں جنکے پیچھے سیاسی شعور موجود تھا۔جن کے پیچھے سیاسی شعور نہیں تھا ان انقلابوں کا تو کوئی چہرہ بھی نہیں بن سکا۔عرب اسپرنگ ابھی کل کی بات ہے۔تیونس سے لیبیا تک اوپر تلے تخت الٹے گئے،مگرخود انقلابیوں کو بھی آجتک علم نہیں ہوسکا کہ یہ انقلاب شروع کیوں ہوا تھا اورختم کیسے ہو گیا تھا۔خطے میں بے چہرہ انقلابوں کاایک نیاسلسلہ اب جین زی نے متعارف کروایا ہے۔ایک ہجوم بہت تیزی کے ساتھ انسٹا گرام سے نکلتا ہے،جھٹ سے حکومت گراتاہے اور پٹ سے واپس انسٹا میں گھس جاتا ہے۔صبح تک اپنی ہی بنائی ہوئی sigma edits کے ذریعے لوگوں کواطمینان دلادیتاہے کہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ویوز ایک لاکھ سے اوپرہوجائیں تواپنے ہی گھڑے ہوئے جھوٹ کوسچ مان کرخود بھی مطمئن ہوجاتاہے۔

انقلاب اورمخمل جیسے الفاظ ایک دوسرے سے لگا نہیں کھاتے۔تاریخ نے مگرچیک سلواکیہ میں آنے والے ایک پرامن انقلاب کو Velvet Revolution یعنی مخملی انقلاب کے نام سے یادرکھا ہواہے۔چیک سلواکیہ فرانز کافکا اورمیلان کنڈیرا جیسے ادیبوں کاملک ہے۔ان دونوں ادیبوں کو انقلاب سے زیادہ اس شخص میں دلچسپی تھی جو کسی بھی طرح کے انقلاب کے بعد تنہارہ جاتاہے۔یہ احساس اجتماعی شعور میں ڈھل جائے تو انقلاب ہموار ہوجاتے ہیں۔چیک سلواکیہ کا انقلاب ہموار تھا۔ خون بہا نہ آنچ آئی۔سر پھٹا نہ آنکھ پھوٹی۔پرامن انقلاب کی یہ واحد مثال تو نہیں ہے مگرخوبصورت مثال ضرورہے۔اس انقلاب میں ہمدردی کا جذبہ غالب تھا۔مختلف رائے رکھنے والوں کی نیت اور کردار پہ انقلابیوں نے شک نہیں کیا۔انقلابوں میں ایسا ہوتانہیں ہے،مگر انقلاب کی قیادت ایک آرٹسٹ کے پاس ہو تو یہ سب ممکن ہوجاتا ہے۔واکلاو ہیول تیس برس سے 'دی پارٹی گارڈن جیسے ڈراموں کے ذریعے سماج کی بنیادوں میں تبدیلی کا پانی چھوڑ رہے تھے۔وہ فنکار سے زیادہ کچھ نہیں بننا چاہتے تھے۔سیاستدان بھی نہیں۔انقلاب کی ہواچلی توقوم نےانہیں اپنا رہنما کرلیا۔انقلاب کامیاب ہوا تو انہی کواپنا صدر بھی منتخب کرلیا۔

مزاحمت کاراگرآرٹسٹ ہو تواسے اپنی طاقت کا اندازہ ہوتا ہے۔آرٹسٹ کے پاس کہانی کی طاقت ہوتی ہے۔وہ مزاحمت کی پوری سرگرمی کو کہانی بنا دیتا ہے۔وہ کردار نگاری کرتا ہےاورعلامتیں تخلیق کرتا ہے۔آوازوں کے اندر خاموشیاں تخلیق کرتا ہے اور خاموشیوں کو معانی دیتاہے۔وکلاو ہیول کے ڈراموں اور کتابوں پرپابندی لگ چکی تھی، مگر ہیول نے کہانی کے ہتھیار کو سرنڈر نہیں کیا۔اس نے لوگوں کے احساس کو کہانی میں ڈھالا اور سنانے کیلئے کہانی کولوگوں کے ہی حوالےکردیا۔کینوس اتنا وسیع رکھا کہ ہرسننے والے کواپناآپ کہانی کامرکزی کردار لگنےلگا۔ہیول نےزیرزمین محفلوں کو تھیٹروں میں بدل دیا۔وائلن اورگٹار کو احتجاج کاحصہ بنادیا۔تنظیم بھی بنائی توکوئی بھڑکتا ہوانام رکھنے کی بجائے سوک فورم جیسا تعمیری نام رکھ دیا۔اس فورم سے جڑنے والوں نے کسی اورکوکچھ نہیں کہا،فقط اپنی کہانی سنائی۔برسوں سے تہہ خانوں میں سنائی جانے والی کہانیوں نے نومبر 1989 میں اپنا راستہ لیا۔کھڑکی دروازوں سے کہانی باہرجھانکنے لگی۔فضا ہوا شجر حجر پھول پانی سب کہانی سنانے لگے۔ملک کہانیوں کے شور سے ایسے گونج اٹھا کہ طاقت چند ہی دنوں میں بے بس ہوکرڈھیرہوگئی۔

ظہران ممدانی کی جیت اور انتخابی مہم کو مخملی انقلاب اس لیے مان لینا چاہیے کہ ظہران کا مقابلہ کسی امیدوار سے نہیں تھا۔اس کا مقابلہ ان لابیوں سے تھا جنہوں نے جمہوریت کواکثریت کے استبداد میں بدل دیا ہے۔سیاسی مہم جوئیوں کوافرا تفری کا سامان بنادیا ہے۔اسکا مقابلہ سی این این، فوکس اورٹویٹر جیسی بیانیہ ساز کمپنیوں کے مالکان سے بھی تھا۔اس گروہ سے بھی تھا جونسلی اورصنفی امتیاز پر فخرجتلا رہا تھا۔غریب کی غربت پر اب باقاعدہ ہنسنے بھی لگا تھا۔تنوع کا انکار رہا تھا اور اظہار کی آزادیوں کو بھی محدود سے محدود تر کرتا چلاجارہا تھا۔

ان سب کا مقابلہ اس لیے بھی آسان نہیں تھا کہ کوئی طاقتور لابی ظہران کی پشت پناہی نہیں کر رہی تھی۔ہارجیت میں کردار ادا کرنے والے تقریبا سارے ہی مراکز اسکے خلاف تھے۔اسکے پاس لوگ تھے اور فقط لوگ تھے۔یہ مقابلہ ظہران کے اعصاب کو چٹخادیتا اگروہ آرٹسٹ نہ ہوتا یاآرٹسٹ ماں کا بچہ نہ ہوتا۔آرٹسٹ کواندازہ ہوتا ہے کہ کہانی کی طاقت کتنی بڑی ہوتی ہے۔وہ جانتا ہے کہ مختلف رنگ نسل اور رجحان رکھنے والے لوگوں کی کہانی کہاں جاکرایک ہوتی ہے۔ظہران نے اپنی مہم کو ایک کہانی بنا دیا۔ایسی کہانی جووہ سنا نہیں رہا تھا بلکہ سن رہا تھا۔کافی شاپ پر دہاڑی بنانے والا اسٹوڈنٹ ہو یا باہر فٹ پاتھ پر پیانو بجاکر پیسے دو پیسے جوڑنے والا غریب، ظہران نے سب کو اپنی کہانی سنانے پرلگادیا۔کہانی سنائو۔عربی اورہندی میں سنائو۔چینی روسی اورہسپانوی میں سنائو۔ بول کر سنائو، ناچ کر سنائو، گاکر سنائو۔روکر سنائو اور مسکرا کر سنائو۔ جیسے بھی سناسکتے ہو بس اپنی کہانی سنائو۔ظہران نے ایک تو ہنسنا نہیں چھوڑا دوسرا کہانی کو رکنے نہیں دیا۔جو جتنی کہانی سناسکا سنا ڈالی۔جو کہانی رہ گئی ظہران نے اسے مکمل کرنے میں مدددی۔لوگ نہیں سناسکے تو ظہران نے وہ کہانی پھر خودسنائی۔بسوں میں چڑھ کر کبھی فٹ پاتھ پہ چل کر کبھی ساحل پہ پہنچ کر سنائی۔ٹیکس کے بوجھ تلے دبنا ایک فقرہ ہے۔اس فقرےکوکہانی میں بدل کرظہران اور اسکی آرٹسٹ بیوی نے ہزارطریقوں سے سنائی۔کبھی ٹریجڈی بناکر سنائی کبھی کامیڈی بناکر سنائی۔کبھی ہزارالفاظ کوسمیٹ کرایک تصویر میں سمودیا۔کبھی تصویرکوتحلیل کرکے باجے میں پھونک دیا۔کبھی اسے رنگوں میں بدل دیا۔پھررنگ سے محنت کش کی تھکن کوپینٹ کردیا۔ظہران نےبتایا کہ طاقت سنانے میں نہیں ہے،سننےمیں ہے۔سناتے وقت آپ مجمع سے الگ ہوکرسامنے کھڑے ہوجاتے ہیں۔سنتے وقت آپ شامل حال ہوجاتے ہیں۔الگ کھڑے ہوکر کہانی سنائو توانقلاب آتے ہیں۔شامل ہوکرکہانی سنو تومخملی انقلاب آتے ہیں۔

تازہ ترین