• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس ملک کی سیاسی تاریخ میں کچھ لمحات ایسے آتے ہیں جنہیں محض قانون کی تبدیلی نہیں کہا جا سکتا، بلکہ وہ پورے ریاستی ڈھانچے کے زاویے بدل دیتے ہیں۔ آئین کی 27ویں ترمیم انہی لمحات میں سے ایک ہے۔ یہ ترمیم محض چند دفعات کی تبدیلی نہیں، بلکہ طاقت کے محور کی نئی تعبیر ہے، ایک نیا عمرانی معاہدہ ہے جسے عوام کی آواز کے بغیر طے کیا جا رہا ہے۔ آئین کی روح، جو کبھی عوامی شرکت اور نمائندگی کی علامت تھی، اب ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے جہاں فیصلے چند بند کمروں میں طے ہو کر پارلیمان کی مہر کے ذریعے قانونی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ وہی مقام ہے جہاں جمہوریت کا چہرہ مسکراتا تو ہے مگر آنکھوں میں روشنی باقی نہیں رہتی۔بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں اپوزیشن نے اپنے تاریخی کردار سے دستبرداری اختیار کر لی ہے۔ جس ملک میں پارلیمان میں اختلافِ رائے کو جرم سمجھا جائے، جہاں اپوزیشن کا کام صرف بیان بازی اور ٹاک شوز تک محدود ہو جائے، وہاں آئینی ترامیم کسی قومی مباحثے کا حصہ نہیں بلکہ حکومتی فیصلے کی مہر بن جاتی ہیں۔ اپوزیشن اب وہ ادارہ نہیں رہی جو حکومت کو توازن میں رکھے، بلکہ ایک خاموش تماشائی ہے جس کے اپنے اندر اتفاق، نظریہ اور ہمت کی کمی ہے۔ اگر آج وہ اپوزیشن ہوتی جو محترمہ بے نظیر بھٹو والی تھی یا وہ جو 2013 سے 2018 کے درمیان تھی جو پارلیمان میں سوال اٹھاتی تھی، جس کے پاس بیانیہ بھی تھا اور اعداد و شمار بھی تو شاید یہ ترمیم یوں خاموشی سے نہ ہو پاتی۔ آج کی اپوزیشن اپنی سیاسی کمزوری سے زیادہ فکری بانجھ پن کا شکار ہے۔ اس کے پاس نہ کوئی وژن ہے نہ کوئی مؤثر آواز۔ وہ طاقت کے سامنے جھکنے کی عادی ہو چکی ہے، جیسے ایک شکست خوردہ سپاہی میدان میں ہتھیار ڈال کر خود کو بہادر سمجھنے لگے۔27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد ایک نئی فیڈرل آئینی عدالت کا قیام عمل میں لایا جائے گا جسے آئین کی تشریح اور آئینی تنازعات کے حل کا واحد فورم قرار دیا گیا ہے۔ اس عدالت کے قیام سے سپریم کورٹ کا بنیادی دائرہ محدود ہو جائے گا۔ بظاہر یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ سپریم کورٹ پر مقدمات کا بوجھ زیادہ ہے، اس لیے مخصوص آئینی مقدمات کے لیے الگ عدالت ضروری ہے، مگر اندرونی حقیقت یہ ہے کہ یہ اقدام عدلیہ کی خودمختاری کو بتدریج کمزور کرنے کی سمت میں پہلا قدم ہے۔ وہ عدالت جو کبھی آئینی حدود کی نگہبان تھی، اب ایک نئے عدالتی ڈھانچے کے تحت حکومت کے قریب تر لائی جا رہی ہے۔ انصاف کی دیواریں اگر حکومت کے سائے میں تعمیر ہوں تو ان کے ستون کبھی مضبوط نہیں رہ سکتے۔ سپریم کورٹ کا کردار محض اپیل کی عدالت بن کر رہ جائے گا، اور آئین کی تشریح اب ایک ایسے ادارے کے ہاتھ میں ہوگی جو اپنے قیام سے ہی تنازع کا شکار ہوگا۔ابھی ترمیم منظور ہوئے چند گھنٹے بھی نہیں گزرئے تھے کہ وہی ہوا جس کا خدشہ ہر بیدار ذہن محسوس کر رہا تھا عدلیہ کے اندر سے ایک ارتعاش ابھرا۔ سپریم کورٹ کے دو ججز، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا۔ ان دونوں کے استعفے صرف ذاتی فیصلے نہیں بلکہ ادارہ جاتی احتجاج ہیں، ایک خاموش مگر گونجدار چیخ کہ آئین کی روح زخمی ہو چکی ہے۔ان دونوں ججز کے استعفے نے اس بحث کو ایک نیا موڑ دیا ہے۔ اب یہ محض مفروضہ نہیں رہا کہ 27ویں ترمیم مرکزیت کو مضبوط کر رہی ہے یہ حقیقت بن چکی ہے جس پر خود عدلیہ کے اعلیٰ ترین ارکان نے مہر ثبت کر دی ہے۔ اگر ہم تاریخ کی طرف دیکھیں تو آئینی ترامیم ہمیشہ کسی بحران کے نتیجے میں آئیں۔ 8ویں ترمیم جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ایک عسکری بیانیے کو آئینی تحفظ دینے کے لیے لائی گئی تھی۔ 18ویں ترمیم ایک جمہوری بیانیے کے طور پر سامنے آئی، جس نے صوبوں کو خودمختاری دی، اختیارات کی تقسیم کا نیا باب لکھا۔ مگر 27ویں ترمیم کا ماحصل نہ مکمل جمہوری ہے نہ عسکری یہ ایک ایسا مرکب ہے جس میں مرکزیت کا رجحان نمایاں ہے۔ اس میں جمہوریت کی روح کم اور کنٹرول کا نظام زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ یہ آئینی تبدیلی دراصل سیاسی نظام کی ری انجینئرنگ ہے، جہاں عوامی نمائندگی کا تاثر تو برقرار ہے مگر فیصلے اب عوامی نہیں، ادارہ جاتی ہو گئے ہیں۔یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اس ترمیم کیلئے وہی دلیل استعمال کی جا رہی ہے جو ہمیشہ اقتدار کے ارتکاز کو جواز فراہم کرتی ہے یعنی اصلاحات مگر تاریخ گواہ ہے کہ اس ملک میں ہر اصلاح کے نام پر اختیار میں اضافہ ہوا ہے، اور جوابدہی میں کمی۔ اس بار بھی یہی خدشہ ہے کہ آئینی اصلاحات کے پردے میں ایک ایسا نظام تشکیل دیا جا رہا ہے جہاں فیصلے چند افراد کے دائرے میں محدود ہو جائیں گے۔ ریاستی ادارے باہم مربوط ضرور ہوں گے مگر ایک کے تابع اور یہی تابعیت جمہوریت کی موت ہے۔ طاقت کا ارتکاز ہمیشہ جمہوری عمل کے خاتمے کا پہلا زینہ بنتا ہے۔

یہ کہنا درست ہوگا کہ 27ویں ترمیم ایک آئینی نہیں بلکہ سیاسی ترمیم ہے۔ اس کا تعلق اقتدار کی حرکیات سے زیادہ ہے نہ کہ قانون کی باریکیوں سے۔ یہ ترمیم ریاستی توازن کے اُس دھاگے کو کمزور کر رہی ہے جس پر پاکستان کی جمہوریت کسی نہ کسی طور قائم رہی۔ آنے والے برسوں میں شاید اس ترمیم کے اثرات محض کاغذوں تک محدود نہ رہیں بلکہ اداروں کے کردار، عدالتوں کے فیصلوں اور سیاست کے مزاج میں ظاہر ہوں گے۔ اور تب شاید ہم یہ سمجھ سکیں گے کہ آئین صرف دفعات کا مجموعہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ اجتماعی ضمیر کا عہد ہوتا ہے اور جب عہد ٹوٹتا ہے تو قانون باقی رہ جاتا ہے، مگر جمہوریت مر جاتی ہے۔

تازہ ترین