اسلام آباد(فاروق اقدس)اک اور ’’ترمیم‘‘ کا سامنا تھا منیر مجھ کو ،میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا،26 اور27ویں آئینی ترمیم کے بعد 28ویں ترمیم کی تیاریاں،تمام متعلقہ تقاضے اور منظوری کا مسودہ تیار، 27ویں آئینی ترمیم جس کے حق میں 234جبکہ مخالفت میں صرف چار ووٹ آئے تھے کی باآسانی منظوری کے بعد اب 28ویں ترمیم کے بارے میں امکانات کی قیاس آرائیاں شروع ہو گئی ہیں اور وفاقی دارالحکومت میں اس حوالے سے حکومتی ذرائع سے وابستگی رکھنے والے حلقے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ 28ویں ترمیم کیلئے تمام مطلوبہ تقاضے اور آئینی ترمیم میں تبدیلیوں کا مسودہ پہلے سے تیارہو چکا ۔تاہم منظوری کیلئے پیش کئے جانے سے قبل کسی ردوبدل کی ضرورت ناگزیر ہوئی تو وہ کی جا سکتی ہے،جس کیلئےبھی انتظامات کئے جا رہے ہیں۔تاہم اب آئین کی مجوزہ 28ویں ترمیم کے حوالے سے بھی جن قیاس آرائیوں کا آغاز ہوا ہے ان میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ ترمیم ملک کے انتظامی ڈھانچے میں اختیارات کی مقامی سطح پر تبدیلی اور بالخصوص لوکل باڈیز کے بااختیار بنانے کے حوالے سے اہم ہو سکتی ہے۔ پھر اس کے ساتھ ساتھ ایک اہم دعویٰ جو کیا جا رہا ہے کہ اس ترمیم کے تحت ملک میں نئے صوبے بنانے کا فیصلہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ جنہیں سالہاسال سے مختلف سیاسی جماعتیں انتخابات سے قبل عوام کو ’’لالی پاپ‘‘دیتی آئیں ہیں۔ واضح رہے کہ سیاسی شناخت کے بغیر ایوان بالا کے رکن سینیٹر فیصل واوڈا جن کی قیاس آرائیوں اور دعووں کو اکثر و بیشتر درست ہونے کی قبولیت حاصل ہوتی ہے۔ گزشتہ دنوں انہوں نے کہا تھا کہ جس طرح 27ویں آئینی ترمیم میں پارلیمنٹ اور ریاستی ادادروں میں طاقت کے توازن کو بہتر بنایا اب وقت ہے کہ 28ترمیم تیار کی جائے۔ مجوزہ28ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے یہ بھی شنید ہے کہ اس ترمیم میں ممکنہ طور پر نئے صوبے انتظامی یونٹ قائم کرنے اختیارات اور وسائل کی منتقلی اور لوکل باڈیز کے مالیاتی اور انتظامی اختیارات کو آئینی تحفظ دینے جیسے اقدامات شامل ہو سکتے ہیں۔ اس قیاس کا تذکرہ بھی سنجیدگی سے کیا جارہا ہے کہ 28ویں آئینی ترمیم کے ذریعے ملک کے صوبائی نقشے کو از سر نو ترتیب دینے کیلئے 12نئے صوبے بنانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ یاد رہے کہ 27ویں آئینی ترمیم میں منظور ہونے والی شقوں پر عملدرآمد کم و بیش مکمل ہو چکا ہے اور اس ترمیم کے مخالفین کا عملی ردعمل بھی سامنے آ رہا ہے اور اس کی مخالفین سیاسی جماعتیں اس کو عدالت میں چیلنج کرنے کی بھی باتیں کر رہی ہیں۔ مذکورہ ترمیم کی منظوری کے حوالے سے اپوزیشن کے الزام کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر بھی یہ تاثر موجود ہے کہ آئین میں اس ترمیم کے ذریعے پاکستان کی آئینی و ادارہ جاتی تاریخ میں ایک اہم موڑ آ رہا ہے اور ملک کے عسکری اور عدالتی ڈھانچے میں ان تبدیلیوں کے دوررس نتائج سامنے آئیں گے۔ 26ویں ترمیم کی منظوری کیلئے مطلوبہ ماحول بنانے کیلئے حکومتی اور اپوزیشن کی سرگرمیاں کم و بیش 2 ماہ تک تسلسل کے ساتھ جاری رہیں۔