• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: ثانیہ انور

ماڈل: ہیرعلی

ملبوساتBalreej's Fashion Karachi :

آرائش: ماہ روز بیوٹی پارلر

زیورات: امیج جیولرز

کوارڈی نیشن: محمّد کامران

عکّاسی: ایم کاشف

لےآؤٹ: نوید رشید

؎ اُس کی گلی سے آج تو گزرے تھے سربدست ہم… اُس نے بہ یک نگاہِ شوق دیکھ لیا ہو یا نہ ہو۔ ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے محبّت و جُنوں کی وارفتگی، آشفتہ سری کو کمال ملاحت و نزاکت سے بیان فرمایا ہے۔ محبّت ہمیشہ سے انسان کا پسندیدہ موضوع رہی ہے، فکرِانسانی اور شعور کے ارتقا کے ساتھ ساتھ محبّت کی مختلف تہیں کھولی، اِس کے نازک پہلو باریک بینی سے سمجھے، بیان کیے گئے ہیں۔ محبّت ہےکیا اور زندگی میں اِس کی ضرورت کیوں ہے؟ اِسی قبیل کے سوالات کے جوابات کی تلاش میں دفتر کے دفتر بَھرے گئے۔ 

بیسیوں فلسفیوں نے یہ گتھی سلجھانے کی کوشش کی، تو سیکڑوں نفسیات دانوں نے کھوجنے کی سعی کر ڈالی، ہزاروں دانش وَروں نے لب کشائی، اَن گنت شعراء نے سخن آزمائی کی، حتیٰ کہ سائنس دانوں نے سائنٹیفک بنیادوں پر بھی چاہت والفت کی جانچ کے لیے خُوب دماغ کھپایا، مگر ہر جواب نے اپنے پیچھے ایک تشنگی کا احساس ہی چھوڑا اور جواب کا یہی ادھورا پن مکمل تشفّی نہیں ہونے دیتا۔ 

درویش اِسے عطائے الہٰی قرار دیتے ہیں، تو کچھ حُکماء اس احساس کو ناقابلِ تشریح کہہ کر دامن بچا جاتے ہیں۔ فلسفی آج تک محبّت کی ایک متفقہ تعریف تک نہ پہنچ سکے۔ کچھ اِسے کائنات کی بنیاد، جُڑے رکھنے کی قوت بتاتے ہیں، تو کچھ کے نزدیک یہ انسان کی فطرت میں موجود احساس، کیفیتِ قلبی کا نام ہے۔ کوئی اِسے معاشرتی معاہدےکی جڑ، کام یابی کارستہ مانتا، تو کوئی تکمیلِ ذات کا ذریعہ جانتا ہے۔ گویا اِک محبّت کے آئینے میں انسان اپنی اصلی، باطنی اورحقیقی شکل دیکھ سکتا ہے۔

ماہرینِ نفسیات محبّت کومحض جذبہ ہی نہیں، حیاتیاتی و سماجی ضرورت گردانتے اور کامل محبّت کو رشتے کو طویل عرصےتک نبھانے کےعزم سے مشروط کرتے ہیں۔ ایک اور نظریہ، محبّت کو دو مراحل میں تقسیم کرتا نظر آتا ہے، جس کے مطابق پُرجوش محبّت وقت گزرنے کے ساتھ لمبی رفاقت میں بدل جاتی ہے، جس کاحاصل باہمی احترام، اعتماد اور پُرسکون قربت ہے۔ گویا محبّت ایک منفرد تجربہ، ایک ریلیٹیو ٹرم (Relative Term)ہے اور ہر شخص بقدرِظرف و ہمّت اپنے دَور اور ثقافتی پس منظر کے مطابق اسے نئے معنی پہناتا ہے۔ 

سائنس سے رجوع کریں تو وہ اِسے ایک طاقت وَرحیاتیاتی محرّک، اعصابی کیمیائی ردِعمل کے مجموعے کے طور پر سامنے لاتی ہے، جو انسانی دماغ میں وقوع پذیر ہوتا اور ارتقائی نقطۂ نظر سے نسل کی بقا، تعلقات کےفروغ کا وسیلہ ہے۔ محبّت میں مبتلا فرد کے جسم میں کئی طرح کے ہارمونز کا اخراج ہوتا ہے۔ ڈوپامائن (Dopamine) خوشی دیتا ہے اور محبوب کے رُخِ روشن کی دید سے جودل کی دھڑکن تیز ہوتی ہے، پسینے آنے لگتے ہیں، اس کے پیچھے’’نورپائنفرین‘‘ (Norepinephrine) ہے۔ 

عشق میں جنونی کیفیت ’’سیروٹونن‘‘ (Serotonin) میں کمی بیشی کی مرہونِ منت ہے، جب کہ والدین، بہن بھائیوں، احباب اور رفقاء کے ساتھ وابستگی، گہرا دیرپا تعلق، تحفّظ، سکون اور بھروسے کے احساس کا سبب بانڈنگ ہارمون ’’آکسیٹوسن‘‘ (Oxytocin) ہے۔ درحقیقت، محبّت احساس، رویے اور ادراک کا امتزاج ہے، جو جسمانی توازن اوربقا کے لیے ضروری ہے کہ محبّت کا نقصان صرف جذباتی تکلیف نہیں، جسمانی فزیالوجی میں حقیقی خلل کا باعث بنتا ہے۔ یہ خلوص واعتماد پرمبنی گہرا، مضبوط فطری لگاؤ ہے، جو بیک وقت دل اور دماغ دونوں سے وابستہ ہے۔ وہ ناسک اعجاز  نے کہا ہےناں؎ بس ایک نظر، ایک جھلک، ایک زیارت… ہم تجھ سے بس اتنے ہیں طلب گار مسافر۔

مزاح نگار شفیق الرحمٰن نے بہت پہلے خبردار کردیا تھا کہ ’’ذہین انسان بڑی مشکلوں سے عاشق ہوتے ہیں۔ محبّت تخیّل کی فتح ہے، ذہانت پر۔‘‘ اور جلال الدین رومی کے مصرعے ’’ایں خیال است و محال است و جنوں ‘‘ کے شروع میں ’’ایں خواب است‘‘ کا اضافہ کر لیں، تو یہ محبّت پر بھی مکمل صادق آتا ہے۔ مگر پھر بھی صاحبو! نقد عُمر بےکار گنوانے سے بہتر ہےکہ محبّت کرلی جائے۔ 

یوں تو محبّت ہر موسم میں راس آتی ہے، مگر گلابی سردیوں کی تحیر خیز شامیں اس لطیف جذبے کی آب یاری اور نوخیز برگ و بار کو خوش آمدید کہنے کے لیے عمل انگیز کا کام کرتی ہیں۔ اطلاعاً عرض ہے کہ عاشق ہونا، معشوق ہونے سے ہزار درجے بہتر ہے کہ عاشق دوسرے کا محتاج نہیں ہوتا، صرف اپنے تخیّل کو مہمیز کیا اور اَن جانی دنیا کی مسحورکُن رعنائیوں سےلُطف اندوز ہو لیے، ویسے تو محبّت والفت کے سرود کے لیے کسی پیکرِ مجسم کاہونا بھی لازمی شرط نہیں۔ 

کسی اَن جانے، ان دیکھے محبوب کی تلاش تاعُمرسرگرم، پُرجوش رکھ سکتی ہے۔ مہرومحبّت کی رنگین فضا سے بہرہ مند ہونے کا آسان، عملی طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اپنے ساتھی، نصف بہتر میں من چاہی خوبیاں متصور کرلی جائیں۔

اُس کی ذات میں موجود مثبت زاویوں پر توجّہ مرکوز کر کے اپنے لیے خوشی کا سامان مہیا کیا جائے، بصورتِ دیگر آسمان پر اچانک نظر آجانے والا ٹمٹماتا ستارہ، اُبھرتے چاند کی سنہری روشنی، چہرے سے ٹکراتا تازہ ہوا کا جھونکا، پھولوں پر ناچتی تتلی، قطرۂ آب پرسات رنگوں میں بٹتی روشنی، ہوا کی مدھم سرسراہٹ، کسی معلوم یا ناشناختہ پرندے کی خوش الحانی بھی دل کو سُکون، شادمانی دینے کو کافی ہے۔

کوئی گم گشتہ یاد، کوئی آدھا ادھورا جملہ، کوئی موہوم سا تعلق کچھ لمحوں کے لیے احساسِ دل کُشا ہوسکتا ہے۔ یہ سب چھوٹی چھوٹی خوشیاں زندگی کا احساس ضرور دلاتی ہیں، مگر اپنی ذات پر پورا بھروسا، خُود سے سچّی محبّت، اِن سب سے کہیں زیادہ اہم ہے۔

اور…ہماری کچھ محبّت و توجّہ کے حق دار تو پری وَش ماڈل کے زیبِ تن کیے گئے پہناوے بھی ہیں کہ لائٹ پِیچ کلر پر باریک کڑھت اور کٹ ورک کے ساتھ دوپٹے کے براؤن کنٹراسٹ نے کیا خُوب ندرت پیدا کی ہے۔ کِھلتے سُرخ رنگ پر سلور کلر اپنی چمک دمک دکھا رہا ہے، تو سیاہ رنگ پرنفیس زردوزی کام کا جلوہ بھی انتہائی دل کش ہے۔ اور پھر آف وائٹ پر نازک رُوپہلی ایمبرائڈری اور ٹی پنک رنگ کا سادہ مگر اسٹائلش جوڑا بھی بھرپور توجّہ کشید کیے جا رہا ہے۔

سنڈے میگزین سے مزید
جنگ فیشن سے مزید