• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صوبے میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت تھی اورپہاڑوں میں تحریک طالبان کاراج تھا۔رباب اور ستار کی آواز فائرنگ اور دھماکوں کے شور میں دب گئی تھی۔طالبان فنکاروں کواغوا کررہے تھے اورمجلس عمل گرفتار کررہی تھی۔کمال محسود کواپنا وطن چھوڑنا پڑ گیا۔کمال محسود کا جادو وزیرستان سے ڈیرہ غازی خان تک بولتا تھا۔وہ سرائیکی میں بھی گاتے تھے۔ہندوکش اور ہمالیہ کے مشکل گزار راستوں سے گزرتی ہوئی جیپوں میں اب بھی انکی آواز سنائی دیتی ہے۔ہم تمہاری راہ دیکھیں گے صنم، تم چلے آؤ پہاڑو کی قسم۔یہ کمال محسود ہیں۔رات کے اندھیرے میں اپنا خون آلود ہارمونیم لیکراسلام آباد چلے گئے۔انہیں سپرمارکیٹ میں اپنی گاڑی کی ونڈ اسکرین پر ایک پرچی ملی۔پرچی پڑھ کر کمال اور بھی خاموش ہوگئے۔کچھ ہی عرصے بعد اسلام آباد کے ایک فلیٹ سے انکی لاش برآمد ہوگئی۔گیس کے ایک سلنڈر کوانکا قاتل قراردیکر فائل بندکردی گئی۔ایسی کتنی داستانیں ہیں۔ہارون باچاپشتونوں کے جگجیت سنگھ ہیں۔جتنا خاموش رہ سکتے تھے رہ لیے۔پھر وہ کافکا کے شہر پراگ سدھار گئے۔سردار علی ٹکر بھی امریکا چلے گئے۔افغانستان کے ڈاکٹرناشناس اورفرہاد دریا بھی وہیں کہیں نظر آتے ہیں۔نئی نسل کے فنکار شمالی افغان اورجاوید امرخیل بھی وہیں جوتیا چٹخاتے ہیں۔یہ سب زندہ ہیں، مگر ہجرت کا دکھ لیے یہاں وہاں پھرتے ہیں۔

سوات دانشوروں اور فن کاروں کا شہرتھا۔یہاں ایف ایم ریڈیو پرلوک گیتوں کی جگہ ملافضل اللہ کی تقریروں نے لے لی۔اسکول کی عمارتیں بارود رکھ کراڑادی گئیں۔شہر کا محاصرہ ہوگیا۔نصیبولال جیسی مقامی کوئل نازیہ اقبال برقع اوڑھ کراسلام آباد نکل گئیں۔گلوکارہ شبنم کو راستہ نہ مل سکا۔اسکوبالوں سے گھسیٹ کر گرین چوک پرلایا گیا۔اسکے بعد جو ہوا وہ بیان کرنا مشکل ہے۔یہ سب ہورہا تھا کہ مجلس عمل نے ایک نوٹیفیکیشن جاری کرکے پشاور کے کلچرل سینٹر کو تالا لگا دیا۔فنکاروں کا معاشی قتل شروع ہوگیا۔جیسے پنجاب میں ریشماں تھیں جیسے سندھ میں مائی ڈھائی ہیں زرینہ بلوچ ہیں،ایسے ہی پشاور میں زرسانگہ ہوتی ہیں۔جس دل سے عابدہ پروین مولا پکارتی ہیں اسی دل سے زرسانگہ کوئے یار میں یاقربان کی صدا لگاتی ہیں۔روٹی کا غم ان کا فن لے ڈوبا۔عالم زیب جیسے فن کار چپلی کباب بیچنے پرمجبورہوگئے اور جو رہ گئے انکے ہاں تبلیغی جماعت میں پناہ لینے کا رجحان بڑھ گیا۔قلندر مومند یہ سب دیکھنے سے پہلے ہی گزر گئے تھے۔سعداللہ جان برق کوالبتہ دیکھنا پڑاکہ شعرجب خاطرغزنوی اور احمد فراز کے وطن سے ہجرت کرتا ہے توکیسامحسوس ہوتاہے۔

2008 ءمیں عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت آئی توباچاخان کی چند ہی نشانیاں باقی رہ گئی تھیں۔میاں افتخارحسین ان میں سے ایک تھے۔میاں صاحب کے ہاتھ میں اختیارآیا تومجلس عمل کاجاری کردہ نوٹیفیکیشن معطل کردیا۔دھول میں اٹے ہوئے تالے پر قلم کی ایک ضرب لگائی اورغنی خان کے نغمے گونج اٹھے۔غنی خان باچا خان کے بیٹے اور ولی خان کے بھائی تھے۔وہ لوک سبھا کے سب سے کم عمر ممبر رہ چکے تھے۔رابندر ناتھ ٹیگور اور نہرو سے انکو رسم و راہ تھی۔شعر ہی نہیں کہتے تھے، مصوری اور مجسمہ سازی بھی کرتے تھے۔کسی موسیقار کا فن امر نہیں ہوسکتا اگروہ غنی خان کے آستان کوچھوکرنہیں گزرتا۔یعنی یہاں آرٹ کی نسبت بھی باچا خان کے گھر جاتی ہے۔میاں صاحب نے کلچرل سینٹر کاتالا تو توڑ دیا،مگر دروازہ ٹھیک سے نہ کھل سکا۔حالات ابھی موافق نہیں تھے۔آدھے لوگ غیر شعوری طور پرطالبان بن چکے تھےاورآدھے ٹراما میں تھے۔فنکار دربدر تھے۔کوئی ملک چھوڑ چکا تھا کوئی کام چھوڑ چکا تھا۔لوگ سرگوشیوں میں بات کررہے تھے۔گلی محلے جتھوں کے حوالے ہوچکے تھے۔کچھ لوگ تھے جو 'مفکورہ کے نام سے چپ چاپ کام کررہے تھے۔کتاب بانٹ رہے تھے اور تھیٹرچلا رہے تھے۔اس تھیٹر کے کردار زمین سے اگے ہوئے نوجوان تھے۔انکے بیچ کہانی کا رشتہ تھا۔یہ دبی آواز میں کہانیاں سنارہے تھے۔انکے تھیٹر اس تھیٹر کی یاد دلاتے تھے جوبرٹش راج کیخلاف خدائی خدمتگار چلارہے تھے۔یہ روم کے تحریکی تھیٹروں کی یاددلاتے تھے۔ان خفیہ تھیٹروں کی یاد بھی دلاتے تھے جو چیک سلواکیہ میں چارٹر 77 کی تحریک سے وابستہ نوجوان زیر زمین چلا رہے تھے۔مفکورہ بھاری پراجیکٹس نہیں چلا رہے تھے۔یہ جگر کا بہت سارا خون جلاتے تھے تو مشکل سے ایک بلب روشن ہوتا تھا۔اسی روشنی میں دال دلیہ کرکے لوگ کام پر لگ جاتے تھے۔

مفکورہ مست الست درویشوں، فن کاروں اور علماء کا ٹھکانہ ہے۔اس ٹھکانے سے سائیں کمال خان شیرانی اور بابا جمالدینی کے 'لٹ خانہ کی بو باس آتی ہے۔لٹ خانہ ایک بکھرا ہوا کمرہ تھا، مگر سیاسی شعور اور ادبی ذوق بانٹنے میں اس کا کردارجامعات سے زیادہ تھا۔بلامبالغہ زیادہ تھا۔شہر کی مرکزی لائبریری میں جتنی کتابیں ہوتی ہیں ان سے زیادہ تو یہ لوگوں کو دیکر بھول گئے تھے۔کچھ ایسا ہی سلسلہ مفکورہ کا ہے۔مفکورہ میں بیٹھے ہوئے روغانی اور ارمان جیسے لوگ دماغوں پر لگے ہوئے زنگ کواتارنے والا کیمیکل بانٹتے ہیں۔نظرمیں تنگی ہوتو محبت کا اسم اعظم پھونک دیتے ہیں۔موسیقی سے ہردرد کا علاج کرتے ہیں۔مفکورہ اب ایک نمائندہ حجرہ ہے۔یہاں ہرطرح کے لوگ بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ستار نواز وجیہ نظامی کے الفاظ میں کہا جائے تو یہاں پر ہونے والے مکالمے بھی سریلے ہوتے ہیں۔کبھی کسی مفتی صاحب کو طبلہ بجاتے ہوئے دیکھا ہے؟ کسی شب زندہ دارعابد کو سرتال پر گفتگو کرتے دیکھا ہے؟تھکےہارے خواجہ سرا کو ٹوٹ کر جائے نماز پر گرتا دیکھا ہے؟یہ ماحول آپ مفکورہ میں ہی دیکھ سکتے ہیں۔یہاں نماز کا اشارہ کریں جائے نماز مل جاتی ہے۔موضوع بتائیں کتاب آجاتی ہے۔نغمے توخیر یہاں اتنے بہتے ہیں کہ اکثر پاؤں کے نیچے آجاتے ہیں۔

مفکورہ نے چند دن پہلے بانسری بجائی اور پورا شہر امڈ آیا۔جس نشتر ہال کو صرف اسپانسرڈ جلسے بھر سکتے تھے، وہ اب ایک تھیٹر کیلئے گنجائش سے زیادہ بھرا ہوا تھا۔میں کراچی سے یہ مناظر دیکھ رہا تھا اور ہراس شخص سے حسد محسوس کررہا تھا جواس تھیٹرمیں براہ راست شریک تھا۔ایسے لگا کہ جیسے تالا تو میاں افتخار حسین نے توڑا ہو مگر دروازہ مفکورہ نے کھول دیاہو۔تالے اور دروازے کے بیچ کا عرصہ بہت کٹھن ہے۔اسمیں اٹھارہ برس اور ہزاروں لاشیں پڑی ہیں۔حالت پھر سے کٹھن ہورہے ہیں۔آگ اور خون کا کھیل شروع ہوگیا ہے۔بس مفکورہ آباد رہے۔مفکورہ نہیں ہوگا تو لالا لطیف آفریدی کو کون یاد کرے گا۔

تازہ ترین