بنگلادیش کی 4 بڑی یونیورسٹیز کی طلبہ یونینز نے سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کے حامی اساتذہ کو فوری طور پر ہٹانے کا مطالبہ کردیا۔
شیخ حسینہ کو انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل (آئی سی ٹی) نے گزشتہ روز سزائے موت سنائی ہے۔ ان کے حق میں بیان دینے والے اساتذہ کو فوری طور پر ہٹانے کا طلبہ نے مطالبہ کردیا ہے۔
اسٹوڈنٹ یونینز نے شیخ حسینہ کے حامی اساتذہ کو ان کے عہدوں سے ہٹانے کیلئے یونیورسٹی انتظامیہ کو 10 دن کی ڈیڈلائن دی ہے۔
یہ مطالبہ ڈھاکا یونیورسٹی، جہانگیر نگر، راج شاہی اور چٹاگانگ یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹ یونینز کے عہدیداروں کی جانب سے مشترکہ طور پر کیا گیا ہے۔
طلبہ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ’پروگریسیو ٹیچرز آف بنگلادیش پبلک یونیورسٹیز‘ کے نام سے اکٹھے ہونے والے اساتذہ کا ایک مجرم کے حق میں بیان دینا عدالت کے فیصلے کی ’’براہِ راست توہین‘‘ اور جولائی کی بغاوت میں جان دینے والوں کی ’’سنگین توہین‘‘ ہے۔
اسٹوڈنٹ یونینز نے یونیورسٹی انتظامیہ سے معاملے کی باقاعدہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے اُن اساتذہ سے کلاسز اور امتحانات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز جسٹس غلام مرتضیٰ موجمدار کی سربراہی میں انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کے تین رکنی بینچ نے سابق وزیراعظم کی سزائے موت کا فیصلہ سنایا تھا۔ ٹریبونل کے دیگر 2 ارکان میں جسٹس شفیع العالم محمود اور جج محیط الحق انعام چوہدری شامل ہیں۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق بنگلادیش کی مقامی جنگی جرائم کی عدالت انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے فیصلہ سنایا۔ عدالت نے شیخ حسینہ واجد کے خلاف مقدمات کا 453 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے شیخ حسینہ واجد کو سزائے موت کا حکم سنایا تھا۔
عدالت نے بنگلادیش کے سابق وزیر داخلہ اسد الزماں کمال کو بھی سزائے موت کا حکم دیا جبکہ سابق انسپکٹر جنرل پولیس چوہدری عبداللّٰہ المامون کو 5 سال قید کی سزا کا حکم دیا۔
بنگلادیشی عدالت نے فیصلے میں کہا تھا کہ لیک فون کال کے مطابق حسینہ واجد نے مظاہرہ کرنے والے طلبہ کے قتل کے احکامات دیے، ملزمہ شیخ حسینہ واجد نے طلبہ کے مطالبات سننے کے بجائے فسادات کو ہوا دی، انہوں نے طلبہ کی تحریک کو طاقت سے دبانے کیلیے توہین آمیز اقدامات کیے۔