سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ابراہیمی معاہدے پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطین اور اسرائیل کے لیے امن اور ابراہیمی معاہدے کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔
اس سے قبل متحدہ عرب امارات اور بحرین 2020 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے لیے ابراہیمی معاہدے پر دستخط کرچکے ہیں۔ بعدازاں اسی برس سوڈان اور مراکش نے بھی ان معاہدوں پر دستخط کیے تھے، جس کے بعد ان مسلم ممالک اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات بحال کیے گئے۔
یہاں یہ واضح رہے کہ سوڈان نے تعلقات بحال کرنے کے لیے ان معاہدوں پر دستخط کا اعلان تو کیا تھا مگر اندرونی عدم استحکام کے باعث یہ معاہدے مکمل طور پر توثیق نہیں ہو سکے، جبکہ مصر اور اردن پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ امن معاہدوں (1979 اور 1994) پر دستخط کر چکے تھے، انہوں نے بھی ابراہیمی معاہدے کی حمایت میں اپنا کردار ادا کیا۔
اس کے علاوہ امریکی صدر نے دیگر مسلم ممالک بالخصوص عرب ممالک پر زور دیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے ابراہیمی معاہدے کو قبول کرے، تاہم اسرائیلی جارحیت کے سبب فلسطین ان معاہدوں کا سخت مخالف رہا۔
یہ ابراہیمی معاہدے ہی ہیں جس کی وجہ سے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان کے درمیان امن معاہدوں کو یقینی بنایا گیا ہے۔ تاہم عرب ممالک کے برعکس بشمول پاکستان دیگر مسلم ممالک نے اسرائیل سے تعلقات پر نرمی نہیں دیکھائی۔
پاکستانی وزارت خارجہ کی جانب سے گزشتہ ہفتے کی ہفتہ وار بریفنگ میں ابراہیمی معاہدوں پر لاعلمی کا اظہار کیا گیا۔ تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ابراہیمی معاہدے کیا ہیں اور یہ امریکا و اسرائیل کے لیے اتنی اہمیت کیوں رکھتے ہیں؟
ابراہیمی معاہدے صرف ایک معاہدہ نہیں بلکہ کئی مختلف معاہدوں کا ایک مجموعہ ہے۔ بنیادی طور پر ان معاہدوں کے ذریعے اسرائیل اور کئی مسلم ممالک کے درمیان تعلقات خاص طور سے سفارتی تعلقات کو باضابطہ قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس میں امریکا ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے۔
ان معاہدوں کا مقصد مشرقِ وسطیٰ میں اتحاد، امن، تعاون، تعلقات اور باہمی مکالمے کو فروغ دینا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کا نام مسلمانوں، عسائیوں اور یہودیوں کے لیے مشترکہ طور پر عزیم پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نام پر رکھا گیا ہے۔
ان معاہدوں میں مخصوص دو طرفہ معاہدے شامل ہیں جو تجارت، سلامتی اور دیگر شعبوں میں تعاون کا احاطہ کرتے ہیں۔
ان معاہدوں کے تحت آمادگی ظاہر کرنے والے ممالک کے درمیان خطے میں موجود خطرات خصوصاً ایران کا مقابلہ کرنے اور مضبوط اقتصادی و سیکیورٹی شراکت داری قائم کرنے کا مشترکہ مفاد موجود ہے۔
یہاں قابل ذکر بات یہ ہے ان معاہدوں کے محرکات میں سے ایک اہم محرک یہ ہے کہ ایک ایسا نیا علاقائی سیکیورٹی فریم ورک تشکیل دیا جائے، جو اسرائیل اور فلسطین تنازعے کو نظرانداز کرتے ہوئے آگے بڑھ سکے، اگرچہ فلسطینی مسئلے پر موثر پیش رفت نہ ہونے سے ان معاہدوں کو مزید تقویت دینے میں رکاوٹ پیدا ہوئی ہے۔ البتہ فلسطین نے اس معاہدے کی سخت مخالفت کی تھی۔
فلسطین کی مخالفت کا بنیادی مقصد عرب ممالک کا دشمن اسرائیل کے ساتھ بڑھتا ہوا بھائی چارہ ہے، فلسطین کے مطابق ان معاہدوں کا مقصد فلسطین کی قومی جدوجہد کو کمزور کرنا ہے، کیونکہ ان معاہدوں میں فلسطین کے حقوق یا اسرائیلی قبضے کے خاتمے پر کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔
دوسری طرف اسرائیل ان معاہدوں کے تحت فلسطین کے مسئلے کو پس پشت ڈال کر مسلم ممالک خاص طور سے مشرقی وسطیٰ خطے کے درمیان خود کو تسلیم کروا رہا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ گریٹر اسرائیل کی جانب بڑھتا ہوا قدم ہے تو غلط نہ ہوگا۔
ان معاہدوں کے نتیجے میں اقتصادی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان آزاد تجارتی معاہدہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اور اس معاہدے نے مشرقِ وسطیٰ کی اسٹریٹجک صورتِ حال کو بھی تبدیل کیا ہے۔