• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کے مسائل اور ان کا حل

سوال: وہ کون سے چار لوگ ہیں جن کے لیے ہمیشہ جہنم ہوگی؟

جواب: ہمیشہ کے لیے جہنم میں وہی شخص جائے گا جس کا انتقال کفر یا شرک کی حالت میں ہو، قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے خود بیان فرما دیا ہے کہ وہ کفر و شرک کو معاف نہیں فرمائے گا، اس کے علاوہ جس گناہ کو چاہے گا، معاف فرمادے گا، لہٰذا جس شخص کا انتقال ایمان کی حالت میں ہو اس کے لیے ہمیشہ کی جہنم نہیں ہوگی۔ 

اگر ایسے شخص نے گناہ کیے ہوں اور سچی توبہ نہ کی ہو جس کی وجہ سے اس کے جہنم میں جانے کا فیصلہ ہوجائے تو وہ اپنے گناہوں کی سزا مکمل کرکے ایک نہ ایک دن اپنے ایمان کی وجہ سے جہنم سے ضرور نکال لیا جائے گا۔

قرآنِ مجید اور احادیثِ مبارکہ میں مختلف گناہوں کے متعلق آیا ہے کہ ان کے مرتکب ہمیشہ جہنم میں رہیں گے یا وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گے، محقّقین اہلِ علم (جیسے امام نووی اور ملاعلی قاری رحمہما اللہ) نے دیگر نصوص کی روشنی میں ان آیات و احادیث کی یہ توجیہ کی ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو ان گناہوں کو جائز اور حلال سمجھ کر کریں، وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے، یا جنت میں داخل نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ ابتداءً جنت میں داخل نہیں ہوں گے، بلکہ طویل زمانے تک جہنم میں رہیں گے اور اپنی سزا پوری کر کے جنت میں داخل ہوں گے، یا مراد یہ ہے کہ ان کے گناہ کی نوعیت تو واقعتًا ایسی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہیں تو انہیں ہمیشہ کے لیے جہنم میں داخل فرمائیں، تاہم ایمان کی وجہ سے کبھی نہ کبھی جنت میں داخل فرمادیں گے۔ (مرقاۃ المفاتيح شرح مشکاۃ المصابيح، کتاب القصاص،رقم الحديث:3453، ج:6، ص:2262، ط:دارالفکر - شرح النووی علیٰ صحیح الامام مسلم، كتاب البر والصلۃ والآداب،باب صلۃ الرحم وتحريم قطيعتھا،ج16،ص113،ط؛دار احیاء التراث العربی)

کفر و شرک کے علاوہ وہ کبیرہ گناہ جن کی سزا ہمیشہ جہنم میں رہنا یا جنت میں داخلے سے محروم ہونا بیان کی گئی ہے، چار سے زیادہ ہیں، جن کا ذکر مختلف آیات اور احادیثِ مبارکہ میں ہے۔ 

ایک حدیث شریف میں ایسے چار گناہ گاروں کا ذکر ہے، حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ کا حق ہے کہ چار طرح کے لوگوں کو جنّت میں داخل نہ فرمائیں اور انہیں جنّت کی نعمتیں نہ چکھائیں: شرابی، سود خور، یتیم کا مال ناحق کھانے والا اور والدین کا نافرمان۔

"امام ابو عبد اللہ حاکم اور علامہ سیوطی رحمہما اللہ نے اس حدیث کو "صحیح" کہا ہے، جب کہ علامہ ذھبی اور امام منذری رحمہما اللہ نے اس پر کلام کیا ہے اور اس کی سند کے ایک راوی "ابراہیم" کو "متروک" قرار دیا ہے۔

علامہ مناوی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ مقصود صرف ان چار گناہوں پر جہنم کی وعید بیان کرنا نہیں ہے، بلکہ ان چار کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ دورِ جاہلیت میں لوگ کثرت سے ان گناہوں میں مبتلا تھے، لہٰذا انہیں ان گناہوں سے باز رکھنے کے لیے یہ شدید وعید سنائی گئی ۔ (فیض القدیر)

اپنے دینی اور شرعی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

iqra@banuri.edu.pk

اقراء سے مزید