• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسلم فلاحی تنظیم کیئر کو دہشتگرد قرار دینے پر گورنر اور اٹارنی جنرل کیخلاف ہرجانے کا مقدمہ

گورنر ٹیکساس گریگ ایبٹ — فائل فوٹو
گورنر ٹیکساس گریگ ایبٹ — فائل فوٹو

مسلم سول رائٹس تنظیم کیئر (CAIR) کی جانب سے گزشتہ روز وفاقی عدالت میں ٹیکساس کے گورنر گریگ ایبٹ اور اٹارنی جنرل کین پیکسن کے خلاف مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔ 

یہ مقدمہ ڈیلس فورت ورتھ اور آسٹن کے کیئر چیپٹرز نے جمعرات کو داخل کیا، جس کا مقصد گورنر پرکلی میشن کو روکنا ہے جس میں کیئر کو ’غیر ملکی دہشت گرد تنظیم‘ قرار دے کر اس پر ٹیکساس میں زمین خریدنے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔

کیئر کے مطابق گورنر نے بغیر کسی نوٹس، شواہد یا سماعت کے ایک امریکی فلاحی تنظیم کو دہشتگرد قرار دیا، جو وفاقی اور ریاستی قانون دونوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔ 

مقدمے میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا اختیار صرف امریکی وزیر خارجہ کو حاصل ہے، لہٰذا گورنر کا یکطرفہ قدم وفاقی آئین کی خلاف ورزی اور اختیارات سے تجاوز ہے۔ 

کیئر نے 14ویں ترمیم کے تحت یہ بھی کہا کہ ایبٹ کے حکم سے ان کی شہرت اور املاک کے حقوق متاثر ہوئے، جبکہ پہلی ترمیم کے مطابق ان کی آزادی اظہار اور سیاسی سرگرمیوں کو نشانہ بنایا گیا، خصوصاً اس لیے کہ کیئر اسرائیلی حکومت کی پالیسیوں پر مسلسل تنقید کرتی رہی ہے۔

مقدمہ دائر ہونے کے بعد گورنر ایبٹ نے ایکس پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ مقدمات ان تنظیموں کی تمام مالی سرگرمیوں اور لین دین کو بے نقاب کر دیں گے‘ اور ’اٹارنی جنرل کے لیے یہ بہترین دن ہوگا‘۔

دوسری جانب گورنر نے پرکلی میشن کے اگلے ہی روز گورنر نے ایک اور خط جاری کرتے ہوئے کالن اور ڈیلس کاؤنٹیز میں سرگرم مبینہ ’شریعت کورٹس‘ یعنی اسلامی ثالثی گروہوں کے خلاف فوجداری تحقیقات کا حکم بھی دیا۔ 

گورنر کے بقول بعض گروہ خود کو ’عدالت‘ ظاہر کر کے ایسے فیصلے جاری کر رہے ہیں جن کا مقصد افراد کو اسلامی قوانین کا پابند بنانا ہے، جو ریاستی اور وفاقی قوانین کے منافی ہے۔ 

انہوں نے دونوں کاؤنٹیز کے ڈسٹرکٹ اٹارنیز، شیرفس، اٹارنی جنرل کین پیکسن اور ٹیکساس ڈیپارٹمنٹ آف پبلک سیفٹی کے ڈائریکٹر فری مین مارٹن کو اس قسم کی سرگرمیوں کی مکمل جانچ کی ہدایت دی۔

ادھر اسلامک ٹریبونل نے اپنی ویب سائٹ پر وضاحت کی ہے کہ وہ کوئی لاء فرم نہیں، اس کے اراکین وکلاء نہیں اور نہ ہی وہ قانونی مشورہ دیتے ہیں، بلکہ اسلامی قانون کے مطابق ثالثی اور پنچایت کی سروس فراہم کرتے ہیں۔ 

ادارے نے واضح کیا کہ تمام کارروائیاں امریکی ریاستی، وفاقی اور لوکل قوانین کے مطابق ہوتی ہیں اور کسی بھی فیصلے کی قانونی حیثیت تب ہی بنتی ہے جب اسے متعلقہ عدالتی جج باضابطہ طور پر منظور کرے۔ تنظیم نے یاد دلایا کہ امریکا میں مسلمان، مسیحی اور یہودی برادریوں میں کئی ثالثی گروہ موجود ہیں جنہیں لوگ رضاکارانہ طور پر اپنا تنازع حل کرانے کے لیے استعمال کرتے ہیں، جبکہ اصل نافذ العمل فیصلہ ہمیشہ سرکاری عدالتیں ہی سناتی ہیں۔

واضح رہے کہ گورنر کا یہ خط اس اعلان کے اگلے روز سامنے آیا جس میں ایبٹ نے کونسل آن امیریکن اسلامک ریلیشنز (CAIR) اور اخوان المسلمون کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیمیں قرار دیا تھا۔ کیئر ٹیکساس نے گورنر کے مؤقف کو ’اسلام مخالف سازشی نظریہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایبٹ امریکی مسلمانوں کو سیاسی طور پر بدنام کرنے کی مہم چلا رہے ہیں۔

بین الاقوامی خبریں سے مزید