تحریر: سلطان الانہ
چیئرمین ایچ بی ایل
پاکستان کا زرعی شعبہ دیہی روزگار اور قومی غذائی تحفظ کی بنیاد ہے- یہ شعبہ آج ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے ۔ اگرچہ زراعت ملکی GDPمیں تقریباً 24 فیصد اور محنت کش آبادی کے 38 فیصد حصے کو روزگار فراہم کرتا ہے، پھر بھی کم پیداوار اور غیر مؤثر نظام، معاشی ترقی اور غربت میں کمی کے لیے سنگین رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ خوراک کی پیداوار کم ہوتی جا رہی ہے اور آبادی میں اضافے کی شرح تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے، جبکہ گندم، چاول، کپاس اور گنے جیسی اہم فصلوں کی پیداوار جمود یا کمی کا شکار ہے۔ یہ رجحان نہایت تشویشناک ہے۔ مستقبل کی طرف قدم اٹھاتے ہوئے، ہمیں صرف مالی معاونت تک محدود رہنے کی بجائے بینکنگ سے آگے بڑھ کر حقیقی معنوں میں تبدل کے بیج بونے کی ضرورت ہے -
پاکستان میں غذائی تحفظ کا بحران اعداد و شمار سے بخوبی واضح ہے۔ 2025 میں گندم، چاول اور مکئی سمیت مجموعی اناج کی پیداوار 47.27 ملین ٹن رہی، جس کی فی ہیکٹر اوسط پیداوار 3.63 ٹن تھی—جو جنوبی ایشیا کے اوسط 4.29 ٹن اور ترقی یافتہ ممالک کے 6.92 ٹن فی ہیکٹر سے بہت کم ہے۔
گزشتہ دس برسوں میں آبادی میں تقریباً 28 فیصد اضافہ ہوا، جبکہ اناج کی پیداوار میں صرف 21 فیصد اضافہ دیکھا گیا، جس کا نتیجہ بڑھتی ہوئی طلب اور گھٹتی ہوئی رسد کی صورت میں سامنے آیا۔ اسی وجہ سے گندم پچھلے تین سالوں سے کل غذائی درآمدات کا 7 فیصد رہی ہے، اور خام کپاس—جو کبھی ہماری برآمدات کا اہم حصہ تھی—اب کل درآمدات کا 4 فیصد بن چکی ہے، جس سے قیمتی زرِمبادلہ پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ ہماری پیداوار عالمی معیار سے تقریباً 30 فیصد پیچھے ہے، یعنی غذائی نظام پر دباؤ اب مستقبل کا خطرہ نہیں رہا بلکہ فوری معاشی اور معاشرتی چیلنج کے طور پر موجود ہے۔
طویل عرصے تک پالیسی سازوں اور مالیاتی اداروں نے زرعی ترقی کے لیے قرضوں اور مالی اسکیموں کو واحد حل کے طور پر پیش کیا۔ اگرچہ سبسڈی اور چھوٹے قرضوں کے پروگراموں کے ذریعےمالی رسائی میں بہتری ضرور آئی ،لیکن زمینی حقائق مختلف کہانی سناتے ہیں۔ 2025 میں پاکستان کی زرعی ترقی صرف 1.51 فیصد رہی، جو جنوبی ایشیا کے اوسط 3.6 فیصد سے کہیں کم ہے۔ جدید زراعت صرف قرضوں سے نہیں بلکہ ایک مربوط نظام سے پھلتی پھولتی ہے، جس میں مشینی زراعت، ٹیکنالوجی، معیاری تربیت، بیجوں کی سائنس، کیمیکل اور زرعی کیڑے مار ادویات کے مؤثر استعمال، اور ڈیجیٹل جدت شامل ہیں۔ پاکستان میں صرف 5 سے 10 فیصد کسان زرعی مشینری یا مارکیٹ انٹلیجنس کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز استعمال کرتے ہیں، جبکہ اکثریت روایتی طریقوں پر انحصار کرتی ہے اور مارکیٹ کی قیمتوں یا موسمی معلومات تک بروقت رسائی نہیں رکھتی۔ اس کا مطلب ہے کہ 90 فیصد سے زائد کسان آج بھی ماضی کے اوزاروں سے مستقبل کی زمین تیار کر رہے ہیں۔
اصل زرعی ترقی صرف قرضے بڑھانے سے نہیں آئے گی۔ ترقی تب ممکن ہوگی جب مشینی زراعت، ٹیکنالوجی، سائنسی تربیت اور موسمی پیشگوئی نیز وسائل کے انتظام کے لیے اے آئی ٹولز کو قومی ترجیح بنایا جائے۔ اس کے لیے بینکنگ سے آگے بڑھ کر ایک ایسے ماڈل کی ضرورت ہے جو مالی معاونت کو جدت، صلاحیت سازی اور علم کی منتقلی کے ساتھ جوڑے۔
فصل کٹائی، بیج بوائی اور کاشت کاری کے لیے زرعی مشینوں کے استعمال اور خودکار آب پاشی کے نظام کے ذریعے افرادی قوت کے استعمال میں نمایاں حد تک کمی آتی ہے جبکہ وسائل کے بہتر استعمال کے ساتھ زیادہ پیداوار حاصل ہوتی ہے، لیکن پاکستان میں اس کا استعمال ابھی تک ناکافی ہے۔ اسمارٹ فارمنگ ٹیکنالوجیز جیسے ڈیجیٹل ایپس، سینسرز، GIS سسٹمز، نیز موسم اور کیڑوں کی پیشگوئی کرنے والی اے آئی ایپلی کیشنز ابھی ابتدائی سطح پر رائج ہیں۔ ان ٹیکنالوجیز کا وسیع نفاذ، اضافی سروسز کے مستحکم نظام اور مسلسل تربیت کے ذریعے ممکن ہے، جو کھیتوں میں وسائل کے بہتر استعمال، کم لاگت اور زیادہ پیداوار جیسے نتائج فراہم کرسکتی ہیں۔ مکینائزیشن اب سہولت کا معاملہ نہیں رہا، یہ بقا کا سوال بن چکا ہے۔ دنیا بھر میں زرعی شعبہ تیزی سے ایک ایسی ڈیٹا پر مبنی صنعت میں تبدیل ہو رہا ہے جسے سیٹلائٹ میپنگ، ڈیجیٹل مٹی کے تجزیے اور ڈرون امیجری جیسے جدید ذرائع چلا رہے ہیں۔ زرعی ٹیکنالوجی اب سہولت کا معاملہ نہیں رہی، یہ بقا کا مسئلہ بن چکی ہے۔
پانی کے مؤثر استعمال کی اہمیت اس سے بھی زیادہ ہے۔ پاکستان کے زرعی نظام میں 40 سے 60 فیصد تک پانی راستے اور کھیتوں میں ضائع ہوجاتا ہے، جبکہ ملک کا 90 فیصد سے زائد میٹھا پانی زراعت میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ ضیاع پانی کے بحران کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ موسمیاتی تبدیلی، خشک سالی اور پانی کی کمی کے دور میں مستقبل کی زراعت جدید آبپاشی، نمی کے سینسرز، اور پانی کے بہتر استعمال کے لیے اے آئی پر مبنی نظاموں پر منحصر ہوگی۔ یہ ٹیکنالوجیز کسانوں کی نہ صرف پیداوار بڑھانے میں مدد کریں گی بلکہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے خلاف تیزی سے کم ہوتے قدرتی وسائل کی حفاظت بھی کریں گی۔
آخرکار، پاکستان میں زرعی محنت کا 60 فیصد سے زیادہ حصہ خواتین انجام دیتی ہیں، لیکن ان کی مالی سہولتوں اور تربیت تک رسائی محدود ہے۔ زرعی تبدیلی کا کوئی بھی ماڈل خواتین کسانوں کو نظرانداز نہیں کر سکتا اور اسے لازماً صنفی طور پر جامع ہونا چاہیے۔ زرعی شعبے میں خواتین کو بااختیار بنانا پیداوار میں فوری اور کئی گنا اضافہ لا سکتا ہے۔
آنے والی دہائیوں میں پاکستان کی غذائی سلامتی اسی کثیر جہتی ارتقا پر منحصر ہے۔ جیسے جیسے 2047 تک پاکستان کی آبادی کا تخمینہ 35 کروڑ کے قریب پہنچ رہا ہے، خوراک کے نظام پر دباؤ کئی گنا بڑھ جائے گا۔ صرف میکانائزیشن میں سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی کے فروغ، اور تمام کسانوں کو مسلسل تربیت و معاونت کے ذریعے بااختیار بنا کر ہی پاکستان کم ہوتی ہوئی پیداوار کا رخ بدل سکتا ہے، خطے کے ہمسایہ ممالک سے اپنا فرق کم کر سکتا ہے، اور ایک زیادہ مضبوط اور پائیدار زرعی مستقبل کو یقینی بنا سکتا ہے۔
"بینکنگ سے آگے بڑھیں — تبدل کے بیج بوئیں " محض ایک نعرہ نہیں ہونا چاہیے،یہ ایک حکمتِ عملی، ایک قومی تحریک بننی چاہیے، جو پاکستان کو اس بات کا پابند کرے کہ زرعی پالیسی، سرکاری و نجی سرمایہ کاری، اور کمیونٹی کی کوششیں سب زیادہ پیداوار، اسمارٹ فارمنگ، پانی کے تحفظ، اور دیرپا غذائی سلامتی کے مشترکہ مقصد کی سمت متحد ہوں۔