آسٹریلیا میں دائیں بازو کی انتہا پسند سینیٹر پالین ہینسن کو پارلیمنٹ میں برقع پہن کر ہنگامہ کرنا مہنگا پڑگیا، انہیں اگلے 7 اجلاسوں کے لیے معطل کر دیا گیا۔
انتہا پسند سینیٹر پالین ہینسن نے حال ہی میں پارلیمنٹ میں برقعہ پہن کر اس وقت ہنگامہ برپا کیا تھا، جب عوامی مقامات پر برقع پر پابندی کے لیے ان کا بل مسترد کردیا گیا، جس کے بعد انہوں نے احتجاجاً پارلیمنٹ کے اجلاس میں برقعہ پہن کر شرکت کی۔
خاتون آسٹریلوی سینیٹر کے اس احتجاج پر اجلاس میں شریک دیگر قانون سازوں کی جانب سے شدید مذمت سامنے آئی۔
انہوں نے برقعہ ہٹانے سے انکار ایوان میں شور شرابہ شروع ہوگیا اور کارروائی معطل کرنی پڑی۔
پالین ہینسن نے گزشتہ روز کینبرا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں برقعہ سے متعلق اپنی رائے پر قائم ہوں، پارلیمان میں کوئی لباس کا ضابطہ موجود نہیں۔ اگر آپ بینک یا کسی اور جگہ ہیلمٹ پہن کر داخل نہیں ہو سکتے جہاں آپ کو اسے اُتارنے کو کہا جاتا ہے، تو پھر برقعہ میں کیا فرق ہے؟‘
انہوں نے مزید کہا کہ میں اپنے موقف پر ڈٹی رہوں گی، جسے میں صحیح سمجھتی ہوں وہ کرتی رہوں گی، عوام ہی میرا فیصلہ کریں گے۔
واضح رہے کہ یہ دوسرا موقع ہے جب سینیٹر پالین ہینسن نے پارلیمنٹ میں برقعہ پہن کر اس نوعیت کا احتجاج کیا ہو۔ اس سے قبل وہ 2017 میں بھی ایسا کر چکی ہیں۔
مسلم سینیٹرز نے اس اقدام کو نسل پرستی اور اسلام دشمنی قرار دیا۔ سینیٹر مہرین فاروقی نے اسے واضح نسل پرستی جبکہ فاطمہ پیمان نے اس حرکت کو شرمناک قرار دیا۔ حکومتی اور اپوزیشن رہنماؤں دونوں نے پالین ہینسن کے عمل کی مذمت کی۔
خیال رہے کہ پالین ہینسن 1990 کی دہائی سے ایشیائی مہاجرین اور پناہ گزینوں کی مخالفت کے باعث نمایاں ہیں۔ وہ اسلامی لباس کے خلاف بھی طویل عرصے سے مہم چلا رہی ہیں۔