ہر طرف اَت ہی اَت ہے حالانکہ اَت تو خداکا ویر(دشمنی) ہوتا ہے جب کہ پت( ملائم پتہ) خدا کی مہر ہوتا ہے۔ اَت غرور،غصے،جوش اورانتقام سے عبارت ہے جسکی انتہا خدا کو انسان کا دشمن بنادیتی ہے اور پت سے مراد درخت کا پتہ بھی ہے اور معاملات کو خوش اسلوبی سے طے کرنابھی۔ جب دنیا بنی تو وحشت کا راج تھا ہر بات ، ہر نزاع، ہر مسئلہ جنگ اور جھگڑے سے طے ہوتا تھا انسان کو جنگ کے علاوہ مسائل حل کرنے کا کوئی طریقہ آتا ہی نہیں تھا مگر جوں جوں انسان نے ترقی کی وہ جنگوں، جھگڑوں اور لڑائیوں سے دور ہوتا چلاگیا اس نے اَت چھوڑنا شروع کردی اور پَت اپنانا شروع کردی۔ مگر افسوس ہمارے معاشرے میں آج بھی پت سے کام لینے کی بجائے اَت سے کام لیا جاتا ہے۔
انسان نے جوں جوں شعوری تربیت حاصل کی اس نے اپنی جنگی جبلت کو مختلف شکلیں دیدیں مقابلے بازی کا شوق پوراکرنےکیلئےکھیلوںمیںپرامن مقابلہ کرکے اپنے اندر موجودمقابلے بازی کی جبلت کی تسکین کرلی۔ ایک دوسرے سے اونچا مقام یابادشاہی حاصل کرنے کیلئے ہتھیاروں سے لڑائی اور لشکروں کے قتل عام کے بجائے امن وآشتی سے ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کیلئے سیاست شروع ہوئی سیاست جنگ کا متبادل ضرور ہوسکتی ہے مگر سیاست میں امن ،مکالمہ اور مذاکرات ہیں جبکہ جنگ میں لڑائی، مارکٹائی اور خون ہیں۔ اَت پنجابی میں بدلے کو بھی کہتے ہیں’’اَت خدا دا وَیر ہوندا‘‘جبکہ پَت کامشہور معنی عزت بھی ہے ’’ ہولال میری پت رکھیو‘‘۔ عزت لازماً انتقام اور بدلے سے بہتر ہے مگر افسوس کہ ملکی سیاست اور حالات اَت کی طرف جارہے ہیں کسی کو بھی پت کی فکر نہیں۔ سیاست اور عہدوں کی عزت ہوا کرتی تھی جو ہم نے کھو دی۔ انصافی بیانیے میں اور سب کچھ ہوتا ہے مگر نہ اپنوںاور نہ ہی غیروں کی عزت ہوتی ہے۔ کسی بھی معاملے میں حد سے گزرنا خطرناک ہوتا ہے ’’ اَت چکنا‘‘پنجابی کا ایک محاورہ ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہر ایک کو تنگ کرکے او دھم مچادینا۔ یہ روش بہت سے فقیر تو برداشت کرگئے، عزت غرق ہونے کو بھی پی گئے لیکن پھر اس طرح کی اَت خدا کا ویر بن جاتی ہے اوروہ اب خدا کا ویر بن چکی ہے مگر یہ ویر انصافیوں کو نہیں مجموعی طور پر ریاست، سیاست، جمہوریت اور رواداری کو نقصان پہنچائے گا۔ عرصہ دراز سے یہ لگ رہا تھا کہ بانی کے بیرون ملک بیٹھے حامیوں کو اسکی جان کی سرے سے فکر نہیں۔ انہیں فکر ہے تو بیانیے کی اور اس سے ڈالر کمانے کی۔ حالانکہ عمران کو جیل سے نکلوالیتے تو سب مسئلے بتدریج حل ہوجانے تھے مگر اَت اٹھا نے کا نتیجہ شدید ڈیڈلاک ہے۔ فوج نے کبھی علانیہ کسی سیاسی لیڈر یا جماعت کیخلاف اتنا سخت ردعمل نہیں دیا۔ فوج بطور ادارہ بھٹو، بے نظیر اور نواز شریف کے خلاف توکام کرتا رہا مگر پس پردہ رہ کر۔ اب لڑائی کا اعلان لازماً تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق ہے۔
گو معاملہ پت سے اَت تک پہنچ گیا ہے مگر تاریخ کا سبق یہی ہے کہ آگ کو ہوا نہ دی جائے بلکہ آگ پر پانی ڈالا جائے ۔ گزشتہ تین سال سے مصالحت اور مذاکرات کی بات کرتے کرتے مایوسی تک پہنچنے کے باوجود اب بھی لڑائی ، جھگڑا، سزائیں اور جماعت پر پابندی مسئلے کا مستقل حل نہیں عارضی طور پر اس سے تحریک انصاف دب جائیگی لیکن غصے، تشدد اور دباؤ سے سیاسی تحریکیں ختم نہیں ہوتیں ان سیاسی جذبات اور سیاسی تحریکوں کو سیاست سے ہی ختم کرناپڑتا ہے۔ سیاست کا مقابلہ ایلو پیتھک طریق علاج سے نہیں بلکہ ہومیو پیتھک علاج سے ہوتا ہے سیاست کے اندر جوش، غصے اور انتہا پسندی کا علاج دانش مندی ہے عقل اور ٹھنڈے مزاج سے ہی جذبات سے نمٹا جاسکتا ہے۔
تحریک انصاف کے انتہا پسندوں اور یوٹیوبرز کی بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ اپنے علاوہ ہرایک کوملزم، لفافی اور ٹاؤٹ سمجھتے ہیں انکا یہ بھی غلط خیال ہے کہ تاریخ میں پہلی بار مزاحمت بھی انہوں نے کی ہے اور تاریخ کی سب سے زیادہ سختیاں بھی انہوں نے برداشت کی ہیں انکی تیسری غلطی یہ ہے کہ وہ اپنے مخالف یا اپنے ساتھی کی ذراسی فروگزاشت یا اعتراض معاف کرنے کوتیار نہیں۔ حالانکہ ایم آر ڈی نے تحریک چلانی تھی تو پیپلز پارٹی نے اپنے شدید ترین سیاسی مخالفوں کیساتھ اتحاد بنایا۔ پی ڈی ایم بھی شدید مخالفوں کا اتحاد تھا جس نے عمران خان کواقتدارسےرخصت کرکےچھوڑا۔تحریک انصاف3سال گزرنے کے باوجود ابھی تک کسی جماعت کے ساتھ صلح کرسکی نہ کوئی اتحاد بناسکی اور نہ جمہوری تحریک کا ایجنڈا ہی دے سکی ہے۔ کئی وکلااور جمہوریت پسند، تحریک انصاف کیساتھ زیادتیوں پر پریشان ہیں مگر تحریک انصاف کے انتہا پسندوں نے اپنی پارٹی کے مندر کو تالے لگارکھے ہیں وہ کسی اور کے موقف کو مانتے ہیں اور نہ کسی اور کو تسلیم کرنے پرتیار ہیں، باقی سب گالیوں سے نوازے جاتے ہیں۔
تحریک انصاف اور عمران خان کی غلطیاں لکھ لکھ کر درجنوں صفحات سیاہ کیے ہیں انصافی ٹرولرز اور یوٹیوبرز کا نشانہ بھی بنا انکی اَت کے مقابلے میں ہمیشہ پَت سے کام لیا۔ جو کچھ خود کرتا ہوں اسی کا طاقتور فریق کو بھی مشورہ دیتا ہوں کہ ریاست کو سیاست میں غصہ اور انتقام نہیں ڈالنا چاہئے سیاست کا تعلق دانش سے ہے اسکے مسائل غصے سے نہیں ٹھنڈے مزاج کے ساتھ دیکھیں۔تحریک انصاف کی غلطیوں،گستاخیوں، گالیوں اور ناانصافیوں کا جواب اسی کی زبان میں دینے کی بجائے اسے سیاست سے حل کرنے کا سلسلہ شروع کریں۔ سیاست کڑوے زہر سے بندے نہیں مار تی سیاست میٹھے زہر سے انسانوں کا شکار کرتی ہے۔
جہاں اَت اور پت کا مقابلہ ہو وہاں’ مت‘ یعنی عقل کی ضرورت پڑتی ہے سیاست کا مقابلہ سیاست سے کرنے کیلئے سیاسی داؤ پیچ اختیار کئے جائیں سیاسی اتحادیوں سے سیاسی چالوں پر مشورے کئے جائیں نواز شریف اور زرداری اس وقت غیر مقبول اور کمزور سہی مگر سیاست پر انکی گرفت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ ان دونوں کو تحریک انصاف نے اسلئے گرالیا تھا کہ اسکے پیچھے ماضی کی مقتدرہ اور عدلیہ کی پوری طاقت تھی۔
باقی رہی بات سوشل میڈیا اور یوٹیوبرز کے جھوٹ اور خودساختہ بیانیے کی، اسکا حل قومی میڈیا کے بندھے ہاتھ کھولنے اور غلط نیوز پر موثر قانون کا نفاذہے۔ ٹی وی کیلئے توپیمرا کا قانون ہے سوشل میڈیا کے معیار پر چیک رکھنے کیلئے پیمرا جیسا ادارہ بننا چاہیے جس میں سرکار بھی ہو اور آزاد لوگ بھی ہوں تاکہ دنیا بھر میں یہ تاثر ختم ہوکہ ملک میں اظہار رائے پر پابندیاں ہیں۔ دنیا کی تاریخ کا جائزہ لے لیں دنیا کے بڑے جھوٹوں کا مقابلہ سچ کے ٹھنڈے وار سے ہوا ہے ۔فیک نیوز کو ختم کرنے کیلئے سچی نیوز توڑ ثابت ہونگی، من پسند تشریحات کا علاج سچ ثابت ہونیوالی تشریحات اور تجزیے ہوتے ہیں۔ پابندیوں سے جھوٹ اور غلط تجزیوں کا مقابلہ نہیں ہوتا اسکا مقابلہ آزادیوں سے ہوتا ہے اگر آزادی ہوتو دوسرے ہی روزجھوٹا بیانیہ اور فیک نیوز پٹنا شروع ہوجائے۔ یاد کریں کہ بڑے بڑے ناموں کی گرفتاری کے دعوے کئے گئے جو سب جھوٹ نکلے مگر قومی میڈیا ان کا مقابلہ نہ کرسکا کیونکہ نہ اسکی رسائی تھی اور نہ اسے آزادی تھی۔ جتنی جھوٹی کہا نیاں، اندرونی باتیں اور خفیہ سازشیں روزانہ یوٹیوبرز افشاکرتے ہیں کیا متبادل میڈیا انکی تحقیق کرکے انہیں غلط نہیں ثابت کرسکتا؟۔بالکل کرسکتا ہے اگر آزاد میڈیا کو موقع ملے تو.....