• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جسٹس طارق جہانگیری کیخلاف ڈگری کیس قابل سماعت قرار

اسلام آباد (عاصم جاوید) اسلام آباد ہائیکورٹ کے ڈویژن بنچ نے ڈگری کے معاملے پر جسٹس طارق محمود جہانگیری کے خلاف درخواست قابل سماعت قرار دیتے ہوئے وفاق اور دیگر فریقین سے تین روز میں جواب طلب کر لیا،سماعت  اسلام آباد ہائیکورٹ کے ڈویژن بنچ نے کی۔ دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد ایاز شوکت نے کہا کہ یونیورسٹی رپورٹ کے مطابق اسلامیہ کالج نے طارق محمود کو اجنبی قرار دیا،چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر نے کہا کہ یونیورسٹی یہ کہہ رہی ہے طارق محمود کبھی اسلامیہ کالج کے طالب علم ہی نہیں رہے۔ گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان پر مشتمل ڈویژن بنچ نے میاں داؤد ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کی۔ دوران سماعت ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی رپورٹ عدالت کے روبرو پیش کی گئی۔ درخواست گزار وکیل میاں داؤد نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 193 کے تحت ہائیکورٹ جج کیلئے وکیل ہونا لازم ہے۔ ایک انگریزی اخبار میں اس حوالےسے خبر شائع ہوئی، کراچی یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات نے تصدیق کی کہ لیٹر درست ہے، کراچی یونیورسٹی کے لیٹر میں کہا گیا کہ جج کی ڈگری فیک ہے، رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی کراچی یونیورسٹی کو ایک ای میل کی جس کے جواب میں تمام باتوں کی تصدیق کی گئی، کراچی یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات نے تصدیق کی کہ لیٹر درست ہے، ان کا کہنا تھا کہ ہائیکورٹ کے جج کے خلاف اسی ہائیکورٹ میں کو وارنٹو پٹیشن قابل سماعت ہے،ہم کووارنٹو کی رٹ میں پوچھ رہے ہیں کہ آپ وکیل یا جج بننے کے اہل نہیں تھے، اس بات کو طول دینے کے بجائے وہ آ کر بتا دیں کہ ان کی ڈگری اصلی ہے یا جعلی، انہوں نے مزید کہا کہ آرٹیکل 209 جج کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد لگے الزام سے متعلق ہے،جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کیس میں سپریم جوڈیشل کونسل نے فیصلہ دیا،جسٹس جہانگیری جج بلکہ وکیل بننے کیلئے بھی کوالیفائی نہیں کرتے تھے، جج پر الزام سچا لگا یا جھوٹا، اب بارِ ثبوت ان پر ہے کہ وہ ثابت کریں کہ ڈگری اصل ہے۔ درخواست گزار وکیل میاں داؤد کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے عدالتی معاون بیرسٹر ظفر اللہ کو طلب کر لیا۔ بیرسٹر ظفر اللہ نے روسٹرم پر آ کر بطور عدالتی معاون دلائل کا آغاز کیا تو اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے وکیل احمد حسن بھی روسٹرم پر آ گئے اور کہا کہ پہلے بار کو اس کیس میں سنا جائے اس کے بعد عدالتی معاون کو سنا جائے، اسلام آباد بار کے وکیل احمد حسن نے اپنے دلائل میں کہا کہ درخواست گزاراس کیس میں متاثرہ فریق نہیں ، اگر یہ سمجھتے ہیں کوئی ایشو ہے تو ان کو بار کونسل جانا چاہئے، وکیل کی ڈگری کا معاملہ ڈسٹرکٹ بار اور بار کونسلز ہی دیکھتی ہیں، انہوں نے کہا کہ جس جج کے خلاف کیس ہے وہ پہلے وکیل رہے، بعد میں جج بنے، وکالت کے بعد جسٹس جہانگیری کو جوڈیشل کمیشن نے جج تعینات کیا، ڈگری اور دیگر معاملات کا فیصلہ بار کونسل نے کرنا ہے، ڈگری غلط ہو تو معاملہ عدالت نہیں، بار کونسل لے کر جانا ہوتا ہے، انہوں نے جسٹس طارق جہانگیری کے خلاف کیس قابل سماعت قرار دینے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیس اس ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار کا نہیں، سپریم جوڈیشل کونسل کا اختیار ہے، استدعا ہے کہ عدالت بار کونسل کے اختیارات میں مداخلت نہ کرے۔ چیف جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں عدالت اس کیس کو نہ سنے؟ جس پر بار کے وکیل نے کہا کہ عدالت فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ یا فیصلہ نہیں دے سکتی، اگر ایک جج دوسرے جج کو "person in the jurisdiction" سمجھے تو نظام بگڑ جائے گا، عدالت سے استدعا ہے کہ اپنے ہی ساتھی جج کو ماتحت نہ سمجھا جائے۔
اہم خبریں سے مزید