• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ عالم نے ایک ایساوقت بھی دیکھا جب بعض پالیسی سازوں کی ناکردہ کاریوں، غلط پالیسیوں اور خود پرستی کی شدت کی وجہ سے پاکستان سفارتی تنہائیوں کا بدترین شکار ہو چکا تھا۔ خدشات کے سائے سرپر منڈ لا رہے تھے۔ ملک کے دیوالیہ ہونے کی باتیں زباں زد عام تھیں۔ تاجر اور شہری تو عذاب جاں سے دو چار تھے ہی‘ ملک کونت نئے تجربات کی بھینٹ چڑھانے والے خود بھی پریشان تھے۔ بات مہاتیر محمد، پیوٹن اور طیب اردوان سے نکل کر محمد بن سلمان، آل خلیفہ اور ارطغر ل ماڈل تک جاپہنچی تھی پھر اچانک پاکستان کی عمرانیات بدلیں عوام کو نئے پاکستان کا فیض نہ مل سکا۔ اسمبلیاں افراتفری پر نثار ہوئیں اور جمہوریت نوازوں پر شہباز وارد ہوئے۔ اچانک سیاسی منظرنامے کایہ بدلا ؤ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کیونکہ زمینی خدا کچھ اور بندوبست کرکے بیٹھے تھے۔ نئے منظرنامے کے کرداروں کی اولیں ذمہ داری بڑ ی واضح تھی۔ پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیساتھ تنہائیوں کی پرچھائیوں کوبھگانا۔اس نیک کام کیلئے پہلاقرعہ فال نسل درنسل امورخارجہ پرمہارت تامہ رکھنے والے خاندان کے فرد بلاول بھٹوزرداری کے نام نکلا جن کے پڑنانا سر شاہ نواز بھٹو نے بھارت سے جونا گڑھ جیتا تھا اور نانا ذوالفقار علی بھٹو شہید مذاکرات کی میز پر ایسے جیتے کہ گاندھی خاندان کی سیاست ہمیشہ ہمیشہ کیلئے انکی کامیابی تلے دفن ہوگئی۔ والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید طویل مارشل لا کے بعد پہلی خاتون وزیراعظم کے طور پر پاکستان کا مقدمہ ملکوں ملکوں لڑتی پھریں۔ واشنگٹن میں اعلیٰ سطحی ملاقاتوں میں بہترین سفارتکاری کے ذریعے مارشل لا کے باعث عائد سفارتی پابندیوں کادباؤکم کرایا۔سوویت کے افغانستان سے انخلا کے بعدپاکستان کے کردار کو معتدل انداز میں پیش کیا۔ ایسی شاندار تاریخ کے وارث بلاول بھٹو زرداری نے بطور وزیر خارجہ مختصر ترین مدت میں تیس سے زائد دوروں کے دوران پاکستان کی عالمی مصروفیات کونیا رنگ دیا۔سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعدماحولیاتی انصاف کا نعرہ بلند کرکے بین الاقوامی تعاون کے دروازے کھلوائے۔پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد قومی مفاد،حقیقت پسندی اور تعمیری سوچ پراستوار کی۔ چین کیساتھ ہرموسم کے ساتھی کے طور پر تعلقات کو وسعت دی۔ عالمی فورمز پر بھارتی پروپیگنڈے کے جواب میں پاکستان کوامن پسند ریاست کے طور پر پیش کیا۔ حالات نے ایک اورکروٹ لی انتخابات ہوئے، فارم سینتالیس کی اصطلاحات رائج ہوئیں، جیت پرشب خون مارنے کے الزامات بھی عائد ہوئے، سچ جھوٹ کافیصلہ تومستقبل کے مورخ اورمحقق کرینگے لیکن اس بحرجمہوریت سے مسلم لیگ (ن)کی حکومت نے سر نکالا۔ اب خارجہ امور کی قیادت ملک کوکئی بارمعاشی بحرانوں سے نکالنے، آئی ایم ایف سے مذاکرات کی میزپراپنا موقف منوانے اوربے لگا م ڈالر کو نکیل ڈال کر متزلزل معیشت کو سنبھالنے والے اسحاق ڈار کے ہاتھ آئی۔ انہوں نے مقدور بھر کوشش کرکے مالیاتی خسارہ کم کرنے،مہنگائی کے جن کو بوتل میں بندکرنے،ا ٓئی ایم ایف کے تعطل کا شکار پروگرام بحال کرانے میں فعال کردار ادا کیا۔ چین، قطر، سعودی عرب، یواے ای اور سی پیک فنانسنگ پر بھرپور کام کیا۔ چینی قرضے ری شیڈول کرائے۔ انہوں نے اپنے دونوں ادوارمیں بیس سے زائد ممالک کے چھپن سے زائددورے کئے۔ معاشی استحکام، سرمایہ کاری، سیکورٹی، توانائی اور علاقائی سفارتی تنہائی سے چھٹکارے کو سفارتکاری کی بنیاد قرار دیا۔ امداد کی بجائے کاروبار کا نعرہ لگایا۔ سفارتکاری کی بنیاد معیشت پر رکھی۔ وزارت عظمی کا منصب سنبھالتے ہی سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کو پانچ ارب ڈالرکی سرمایہ کاری پر رضامند کیا۔ جس کے بعد ایک بڑے سعودی وفد نے اسلام آباد میں دو ارب ڈالر کے معاہدوں پر دستخط کرکے عندیہ دیا کہ بات ایفائے عہد تک جا پہنچی ہے۔ دفاعی تعلق کی استواری اورسعودی عرب پرحملے کو پاکستان پر حملے کے موقف نے اعتماد کے رشتے کو مضبوط تر کر دیا۔ ابوظہی اور دبئی کے دوروں کے دوران وزیراعظم کی شیخ زید بن النیہان سمیت عرب رہنماؤں سے ملاقاتوں میں دس ارب ڈالرکی سرمایہ کاری میں دلچسپی سے لگا کہ اب تعلقات کا محور صرف ترسیلات زرسے بڑھ کر سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور گورننس ریفارمز کے معاہدوں پرمحیط ہے۔ چین کی سی پیک فیزٹو پر آمادگی کیساتھ ساتھ ساڑھے آٹھ ارب ڈالرکے نئے معاہدوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب سی پیک سڑکوں اور توانائی گھروں سے نکل کر ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت، زرعی ویلیو چین اور اسپیشل اکنامک زونز کے عملی قیام تک پہنچ چکا ہے۔ چین اور سعودی عرب ہی نہیں ایران، ترکیہ، آذربائیجان، قطر، یورپی یونین،امریکہ،ازبکستان، قازقستان، کرغزستان، روس، افغانستان، انڈونیشیا، جرمنی، برطانیہ، فرانس اور جاپان سے رشتہ مزید مستحکم ہوچکا ہے۔ نیویارک میں اقوام متحد ہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر، موسمیاتی تبدیلی اور علاقائی امن وسلامتی کامقدمہ جانفشانی سے لڑکر وزیراعظم دنیا بھر میں خراج تحسین کے مستحق ٹھہرے لیکن اس محنت کے ثمرات تبھی حاصل ہوسکتے ہیں جب نوکرشاہی کے سرخ فیتے کا خاتمہ ہو گا۔ رسمی یادداشتیں معاہدوں میں بدل کر عملی صورت اختیار کرینگی۔

تازہ ترین