• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یومِ انسانی حقوق اور ’ریکلیم نائٹ مارچ‘ کے ساتھ خصوصی پروگراموں کا انعقاد

— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

یونیورسٹی آف بریڈفورڈ میں خواتین پر تشدد کے خلاف چلائی جانے والی عالمی مہم ’Sixteen Days of Activism Against Gender-Based Violence‘ کا اختتام انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر منعقدہ خصوصی تقریب اور سالانہ ’ری کلیم نائٹ مارچ‘ کے ذریعے ہوا۔ 

یہ مہم 25 نومبر سے شروع کی گئی تھی جس کا مقصد خواتین اور بچیوں کے خلاف ہر قسم کے تشدد، ہراسگی اور امتیازی سلوک کے خاتمے کیلئے شعور اُجاگر کرنا تھا۔

اس سال کا مارچ یونیورسٹی آف بریڈفورڈ، سوشل جسٹس سوسائٹی اور بریڈفورڈ کالج اسٹوڈنٹس سروس کے اشتراک سے منعقد ہوا۔

تقریب سے خطاب کرنے والوں میں بریڈفورڈ یونیورسٹی کی وائس چانسلر پروفیسر شرلی کونگڈن، پرو وائس چانسلر اُدی، سوشل جسٹس سوسائٹی کی صدر سامیعہ محبوب، اسسٹنٹ پروفیسر جل کیرکمین اور بریڈفورڈ کالج اسٹوڈنٹس سروس کی صدر مقدس بشیر شامل تھیں۔

اپنے خطابات میں مقررین نے سولہ روزہ مہم کی کامیابی کو سراہتے ہوئے کہا کہ خواتین کے حقوق کی حفاظت صرف قانون سازی یا پالیسیوں سے ممکن نہیں، بلکہ اس کیلئے معاشرتی رویّوں میں تبدیلی، اجتماعی شعور اور ہر سطح پر حمایت ناگزیر ہے۔

مارچ کے دوران شرکاء نے واضح پیغام دیا کہ عورت کی آزادی، خود مختاری اور تحفظ کسی بھی مہذب معاشرے کی پہچان ہے اور اس جدوجہد کو ہر سطح پر جاری رکھنا وقت کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ ری کلیم نائٹ مارچ کی جڑیں 1977 کے اُس افسوسناک دور سے جا ملتی ہیں جب بدنام زمانہ ’یارکشائر رِپر‘ نے لیڈز، بریڈفورڈ، مانچسٹر اور اردگرد کے علاقوں میں متعدد خواتین کو بہیمانہ انداز میں قتل کیا۔

اُس وقت پولیس نے حفاظتی اقدام کے طور پر خواتین کو رات کے اوقات میں گھروں تک محدود رہنے کی ہدایات جاری کی تھیں، جس پر خواتین نے شدید ردعمل ظاہر کیا تھا۔

خواتین نے اس فیصلے کو اپنی نقل و حرکت کی آزادی اور حقوق پر قدغن قرار دیتے ہوئے سڑکوں پر نکلنے اور رات کے وقت مارچ کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہی احتجاجی تحریک بعد میں ’ری کلیم نائٹ‘ کے نام سے ہر سال منائی جانے والی علامتی جدوجہد میں تبدیل ہو گئی، جو خواتین کے محفوظ معاشرتی کردار اور بنیادی حقوق کی نشاندہی کرتی ہے۔

برطانیہ و یورپ سے مزید