• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ لوگ جو مقروض پیدا ہوتے ہیں اور مقروض مرتے ہیں،زمینی کارندوں کے ہاتھوں میں ان کے والدین کے نام پکی روشنائی میں لکھے ہوتے ہیں،جن کا اصرار ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ تمہارے ماتھے کا لکھا ہے،محنت کرتے مر جاؤ تب بھی سود (بیاج )کا ایک حصہ ادا ہوگا پر جو بڑے لوگ ہوتے ہیں ان کیلئے یہ قرض خوشحالی لاتے ہیں کہ کروڑوں اربوں کے یہ قرض قلم زد ہو جاتے ہیں ان کی فیکٹریاں،کارخانے جب جلتے ہیں ان میں کروڑوں کی کپاس ،اجناس جلتی ہیں تو انکی خوش حالی میں اضافہ ہو جاتا ہے کہ انہیں انشورنس کے کروڑوں روپے مل جاتے ہیں، اس ادائیگی کے بعداسٹاک رجسٹر بھی جل جاتے ہیں اور انشورنس والے بھی لکھ پتی سے کروڑ پتی نہیں ہوتے۔یہی لوگ زمین پر سزا جزا کے مالک ہیں ان کے اشارے پر عدالتیں کھلتی اور بند ہوتی ہیں اور قیدیوں کیلئے خالی وین ان کے اشارے پر ادھر سے ادھر جاتی ہے۔ یہ لوگ ہمارے علما،مشائخ اور درباری مورخین کے تعاون سے اپنے شجرے تک بدل لیتے ہیں یوں وہ ہزاروں ایکڑ وقف تک والی سجادہ نشینی ان کے نام لکھی جاتی ہے ۔

ایسے میں کسی کو بہاولپور کے نوابوں کا شجرہ دیکھنے کی ضرورت نہیں اور نہ ملتان کے ایک نواب کے بارے میں کوئی زائد از نصاب سوال کرنے کا کہ ان کا کون کون سا بیٹا سکھوں کی خوش نودی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔یہ دور ہی ایسا تھا کہ مبارک علی جیسے مورخ بتا سکتے تھے انگریز،سکھ طاقت آزمائی سے کون کون ہر دربار میں کرسی اور جاگیر پارہے تھے؟ ایسے میں سردار کوڑا خان جتوئی کی بات کرنا عجیب سا ہو گا جس نے دو لاکھ بانوے ہزار چار سو بائیس کنال (یعنی کہ ستانوے ہزار چار سو چوہتر ایکڑ زمین) غریب بچوں،بچیوں کی تعلیم کیلئے وقف کر دیئے حالانکہ کوڑا خان(کوڑا ملتانی زبان میں کڑوے کو کہتے ہیں) خود تو ان پڑھ یا انگوٹھا چھاپ تھا،اس نے کتابیں نہیں لکھیں مگر کتابیں لکھ سکنے والے ہزاروں لاکھوں بچوں بچیوں کو بغیر فیس لئے پڑھوا دیا۔جیسے کوڑا خان کے زمانے میں انگریز تھے سکھ تھے اور انکے خلاف لڑنے والے بھی تھے اور ساتھیوں کو چکمہ دے کر انعام،اکرام یا کرسی کا وعدہ لے کر میر جعفر اور میر قاسم کا چغہ پہننے کے لئے تیار بھی تھے۔ پھر سال ہا سال سے کون سا مقدمہ ہے جو سپریم کورٹ کی فہرست سے پوری طرح خارج نہیں ہوا۔ ہوا یہ کہ ڈپٹی کمشنر سارے قدرت اللّٰہ شہاب تو کیا شہزاد قیصر یا طارق محمود نہیں ہوتے ،سردار کوڑا خان کی وصیت میں "تعلیم اور مفادِ عامہ" کے الفاظ تھے تعلیم کا مطلب تو اب ان پڑھوں کو بھی سمجھ میں آنے لگا ہے مگر " مفادِ عامہ" کے لفظ نے حاکمِ ضلع کے اختیارات بڑھا دئیے۔ اب یہ انکی صوابدید ہو گئی کہ "مفادِ عامہ" سے سردار کوڑا خان بہشتی کی مراد کیا تھی؟۔سڑکیں،پل ،پارک جو پبلک فنڈز یا ڈسٹرکٹ کونسل یا انتظامیہ کی خوشنودی کے منتظرافراد(ٹرانسپورٹر،ہر قسم کے ٹھیکیدار)کے عطیات سے بننے چاہئیں وہ اس ٹرسٹ کے فنڈز سے بننے لگے۔

میری عمر کے لوگ سردار کوڑا خان سے تو نہیں ملے مگر وہ سردار مظفر خان مگسی سے ملے ہوں گے،وہ بھی بلا کے ضدی ہیں وہ کسی بے ضابطگی یا غبن پر سیدھے سپریم کورٹ میں جا پہنچتے ہیں، میں نے ان کا وہ جوتا دیکھا ہے جس کے تلووں میں سوراخ ہیں ہوا یہ کہ جس روز سپریم کورٹ میں سماعت تھی،ٹرین لیٹ تھی اور پٹری پٹری کئی میل پیدا چل کر پنڈی اور پھر اسلام آباد پہنچے اپنے جوتے عرت مآبوں کو دکھائے انہیں یقین آ گیا کہ یہ دیوانہ اپنی زندگی میں سردار کوڑا خان جتوئی ہائر سیکنڈری اسکول کو ہی نہیں ٹرسٹ کے تحت چلنے والے علی پور،جتوئی اور کوٹ ادو کے تعلیمی اداروں کی بیالوجی اور کمپیوٹر سائنس کی لیبارٹریوں کو جدید دیکھنا چاہتا ہے اور وہاں کے استادوں اور ملازمین بھی کسی قدر" مجنون " کہ وہ بد عنوان ہاتھ کو روک دے۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں انہیں ڈاکٹر اختر حمید خان کے حوالے سے بھی قائل نہیں کر سکا تھا جنہوں نے کہا کہ تعلیم مفت ہو گی تو غریب والدین بھی اس کی قدر نہیں کرینگے انہیں اپنے بچوں کی تعلیم کیلئے اپنی نصف روٹی کی قربانی دینی چاہئے یا اس کی خاطر زیادہ مشقت یا مزدوری کرنی چاہئے،اسی طرح مجھے کالج فیلو خیر محمد بدھ مرحوم کا ذکر بھی کرنا پڑ رہا ہے جو اصغرندیم سید کی طرح مجھ سے ایک برس جونیئر تھے وہ لیبر ویلفیئر افسر رہے ہزار ہا کالم لکھے اور ہر ایم پی اے ایم این اے کے اس لارے پر قصیدہ لکھا جو کہتا تھا کہ میں پنجاب کے حاکم سے وعدہ لے آیا ہوں کہ مظفر گڑھ یا علی پور میں یونیورسٹی بنائی جائیگی اور ساتھ ہی کہتے تھے کہ میں نے یونیورسٹی کیلئے ایک ہزار ایکڑ خالی زمین کی نشان دہی کی ہے اور اب جناب گورنر یامحترمہ وزیر اعلیٰ کے قریبی اسٹاف تک فائل پہنچا دی ہے۔ اس اعلان کا انتظار کرتے کرتے خیر محمد بدھ جزو خاک ہو گئے۔ ماجرا یہ ہے کہ زراعت یا لائیو اسٹاک کے افسران تو کاغذوں میں یہاں کئی یونیورسٹیاں بنا چکے ہیں،سیدھی بات ہے کہ یہاں مظفر گڑھ میں پوسٹ گریجویٹ کالج ہے بوائز اور گرلز۔ آج اپنی سال گرہ منانے والی سابق سربراہ زکریا یونیورسٹی ڈاکٹر حمیرا دستی کے بزرگ عبدالحمید دستی کی ہزاروں ایکٹر زمین ہے مظفر گڑھ کی یونیورسٹی کا نام سردار کوڑا خان یونیورسٹی رکھا جائے علاقے کے بہت سینئر استاد ڈاکٹر شعیب عتیق خان اور سردار مظفر مگسی کو رجسٹرار مگر اس سے پہلے تین افراد کے گرد ایچ ای سی کی سربراہی ،قائد اعظم اور پنجاب یونیورسٹی کی وائس چانسلری کی میوزیکل چیئرز ریس بند کرائی جائے۔ میرے سامنے ایک کتاب پڑی ہے سیّارگانِ بہاولپور کچھ مسافروں کے بارے میں کبھی ایک مسند پر کبھی دوسری مسند پر۔

تازہ ترین