وطن عزیزمیں طاقتور ترین جرنیلوں کی فہرست مرتب کرنے بیٹھیں تو یہ فیصلہ کرنا دشوار ہوجاتا ہے کہ کس کا نام نامی سب سے پہلے تحریر کیا جائے۔جنرل اختر عبدالرحمان کو فاتح افغانستان کہا جاتا ہے مگر ان کے جانشین لیفٹیننٹ جنرل حمید گل نے ڈی جی آئی ایس آئی بننے کے بعد اپنے نام کی ایسی دھاک بٹھائی کہ انہیں جاسوسی کی دنیا کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔تاہم جنرل ضیاالحق کی موت کے بعد میجر جنرل حمید گل ان کے قاتلوں کو ڈھونڈنے کے بجائے سیاسی بندوبست میں مصروف ہوگئے اور انہیں یہ فکر لاحق ہوگئی کہ جنرل ضیاالحق کے نظریے اور سوچ کو کیسے زندہ رکھنا ہے۔ شجاع نواز کی کتاب ”کراسڈ سوارڈز“کے مطابق امریکی سفیر رابرٹ اوکلے کو یہ فکر لاحق تھی کہ کہیں جنرل اسلم بیگ جنرل حمید گل کی باتوں میں آکر الیکشن ملتوی نہ کردیں کیونکہ جنرل حمید گل انہیں کہہ چکے تھے کہ ہم انتخابات کروانے کے متحمل نہیں کہ تیاری مکمل نہیں۔پیپلز پارٹی الیکشن جیت جائیگی،لہٰذا عام انتخابات ملتوی کردیں۔
جب الیکشن ملتوی کروانے کی کوششیں ناکام ہوگئیں تو جنرل حمید گل نے بینظیر بھٹو کا راستہ روکنے کیلئے دائیں بازو کی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنیکی کوشش کی۔16نومبر 1988ء کو انتخابات ہونا تھے اور ایک مہینہ پہلے لاہور میں غلام مصطفی جتوئی کی سربراہی میں اسلامی جمہوری اتحاد کے قیام کا اعلان کردیا گیا۔مسلم لیگ جونیجو اور نیشنل پیپلز پارٹی کے علاو ہ،جماعت اسلامی،مہاجر قومی موومنٹ،جمعیت علمائے اسلام نظام مصطفی گروپ، مرکزی جمعیت اہلحدیث لکھوی گروپ اور چند دیگر چھوٹی جماعتیں اس انتخابی اتحاد کا حصہ بن گئیں۔جے یو آئی فضل الرحمان گروپ،شاہ احمد نورانی کی جے یوپی،عوامی نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے اس عسکری اتحاد کا حصہ بننے سے انکار کردیا۔سینئر صحافی اظہر سہیل اپنے کتاب ایجنسیوں کی حکومت کے صفحہ نمبر 47اور48پر لکھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کو پورے ملک سے قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کو ملا کر مجموعی طور پر 70نشستیں دینے کا فیصلہ کیا گیا۔
ڈی جی آئی ایس آئی میجر جنرل حمید گل کی تمام تر تگ و تاز کے باوجود پیپلز پارٹی قومی اسمبلی کی 207میں سے 93نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی،اسلامی جمہوری اتحاد کو 55سیٹیں ملیں،جبکہ ایم کیو ایم کو کراچی اور حیدرآباد سے 13نشستوں پر کامیابی دلوائی گئی۔غلام مصطفی جتوئی اور محمد خان جونیجو جیسے رہنما ہار گئے تو میاں نوازشریف کی راہ ہموار ہوگئی اور وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ بن گئے جبکہ بینظیر بھٹو پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہونے میں کامیاب ہوگئیں مگر جنوری1989ء سے ہی حمید گل نے پیپلز پارٹی سندھ کے ممبر توڑنے شروع کردیئے تاکہ سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی اتحادی حکومت کو گرایا جا سکے۔چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی ایڈمرل افتخارسروہی اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل حمید گل ایوان صدر جاکر غلام اسحاق سے مشورے کیا کرتے تھے کہ بینظیر بھٹو کی حکومت کیسے گرائی جائے۔بینظیربھٹو اپنی کتاب ”دختر مشرق“کے صفحہ نمبر 459پر لکھتی ہیں کہ نیویارک سے واپسی پر مجھے محسوس ہوا کہ میرے ٹیلیفون کو جنرل حمید گل ذاتی طور پر نگرانی میں رکھے ہوئے ہیں۔میں نے سیکریٹری دفاع کو اسلام آباد میں صدر کے معاونین اور مخالفین کے نمائندوں کی خفیہ میٹنگ رپورٹ لانے سے متعلق بات چیت کی۔جونہی میری کال ختم ہوئی سیکریٹری دفاع کو جنرل حمید گل نے بلالیا اور کہا،وزیراعظم میٹنگ کی روداد جاننا چاہتی ہیں۔ ہاہاہا۔
شجاع نواز اپنی کتاب”کراسڈ سوارڈز“میں لکھتے ہیں کہ بینظیر بھٹو کو بتایا گیا کہ سعودی عرب سے یہ فتویٰ دلوانے کے پیچھے جنرل حمید گل تھے کہ اسلام میں عورت کی حکمرانی جائز نہیں۔بینظیر بھٹو کے مطابق انہیں رپورٹس ملیں کہ جنرل حمید گل اور آئی ایس آئی نہ صرف ان کی حکومت گرانے کے درپے ہیں بلکہ شایدلاہور ایئرپورٹ پر حملہ کرکے قتل کرنے کا منصوبہ بھی بنایا گیا جس پر عملدرآمد نہ ہو سکا اور نہ ہی ان رپورٹوں کی تصدیق ہوسکی۔جنرل حمید گل نے کئی بار آئی جے آئی بنانے کی ذمہ داری قبول کی۔وہ کہا کرتے تھے کہ انہوں نے توازن قائم کرنے کیلئے اسلامی جمہوری اتحاد کی بنیاد رکھی۔اگر وہ آئی جے آئی نہ بناتے تو الیکشن نہ ہوتے۔ ایک موقع پر انہوں نے پشیمانی کا اظہار بھی کیا تاہم وہ ببانگ دہل کہا کرتے تھے کہ اگر کسی میں دم ہے تو ان کا کورٹ مارشل کرکے دکھائے۔جنرل حمید گل نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ بینظیر بھٹو کے وزیراعظم بننے کے بعدبطور ڈی جی آئی ایس آئی انہوں نے بذات خود یہ بات انہیں بتائی کہ میں نے آئی جے آئی بنائی۔1990ء میں لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی نے آئی جے آئی کے امیدواروں میں رقوم تقسیم کیں،اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آگیا مگر عملدرآمد کی نوبت نہیں آئی۔لیفٹیننٹ جنرل جاوید ناصر، لیفٹیننٹ جنرل جاوید اشرف قاضی، لیفٹیننٹ جنرل محمود،لیفٹیننٹ جنرل احسان الحق (بعد ازاں جنرل)اور لیفٹیننٹ جنرل اشفاق پرویز کیانی(بعدازاں جنرل) کے کارہائے نمایاں کی فہرست بھی بہت ضخیم ہوگی مگر لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام اور لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشا نے تو ماضی کے سب ریکارڈ توڑ دیئے۔اور پھر لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید تشریف لائے تو کھیل کے قاعدے ہی نہیں بدلے اندازواطوار بھی تبدیل ہوگئے۔انگریزی کی اصطلاح مستعار لینے کی اجازت دیں تو انہوں نے ایک ”نیو نارمل“متعارف کروایا۔چنانچہ فوج نے بھی اپنی پالیسی یکسر تبدیل کرتے ہوئے ایک سابق ڈی جی آئی ایس آئی کو سزا سنادی ہے۔بعض احباب جو ہر اچھی خبر میں منفی پہلو تلاش کرنے کی علت کا شکار ہوتے ہیں،ان کا استدلال ہے کہ یہ سب ذاتی اور انفرادی معاملات کا شاخسانہ ہے۔تکلف برطرف، جنگل میں بھیڑیوں کے گروہ میں شامل کوئی درندہ کسی بھی وجہ سے نشان عبرت بن جائے تو بھیڑوں اور جنگل کے دیگربے ضرر باسیوں کیلئے تو یہ اچھی خبر ہی ہوگی ناں۔