• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت کچھ اربابِ قلم قسمیں کھا رہے ہیں کہ سابق جنرل فیض حمید نے پوری رات انہیں ہاتھ نہیں لگایا تھا ،ایسے میں فیض احمد فیض سے پیار کرنے والے بھی ہیں جنہیں کسی کو ایسا یقین دلانے کی ضرورت نہیں تھی پھر بھی کوئی تو ہم ایسا غریب ہو گا جسے ان اربابِ قلم کی قسموں کے بعد جناب احمد ندیم قاسمی کا افسانہ’ رئیس خانہ‘ یاد آیا ہوگا جب ایک چالاک افسراپنے ہدف تک پہنچنے کے لئے دکھاوے کے ضبطِ نفس کا مظاہرہ کرتا ہے سو باخبروں کا دعویٰ ہے کہ ابھی طلسمِ ہوش ربا کے کچھ اور ورق کھلیں گے ،کچھ وعدہ معاف بنیں گے اس دوران سولہ دسمبر آیا اور گزر گیا ایک طرف ہمارے کچھ خوش فہم لیکھک ڈھاکہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں جاکر اقبال اور نذرل پر مضمون پڑھ کے دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کے مقالات کی برسات نے خون کے سارے دھبے ہی دھو ڈالے ہیں مگر ڈھاکہ یونیورسٹی سے ایم اے معاشیات کرکے بعد میں بھی وہاں کے استادوں اور ہم درسوں سے رابطہ برقرار رکھنے والے طارق محمود اوراظہار الحق جیسے افسانہ نگار اور شاعروں کی تحریریں بہت غور سے پڑھتے ہوئے سوچنا پڑتا ہے کہ محترمہ حسینہ واجد کا تختہ الٹنے والے طالب علم رہنما شیخ عثمان ہادی پر قاتلانہ حملے کے بعد بنگلہ دیش نے بھارت سے احتجاج کیوں کیا؟ ساتھ ہی یہ خیال بھی آتا ہے کہ آخر اس زخمی نوجوان کو سنگاپور کے ہسپتال میں کیوں لے جایا جا رہا ہے؟ کیا کلکتہ کی قربت نے ڈھاکہ میں بہت اچھے ہسپتال اور معالج بھی پیدا نہیں ہونے دئیے، آزادی کے چوّن برس بعد بھی؟ ہمیں یہی یوم سیاہ آرمی پبلک اسکول کے معصوم بچوں اور ان کے جاں باز استادوں(پرنسپل مسز قاضی سمیت) کی قربانی یاد دلاتا ہے جس نے پوری قوم کو اس بات پر متحد کیا تھا کہ سفاک قاتلوں کو اپنے گھر میں سے تو نکالیں پھر جب ایسے فیصلے کرتے ہیں تو طورخم بارڈر بند کرنا پڑتا ہے سرگودھا اور رینالہ خورد کے کینو اپنے لوگوں کو ہی کھلانے پڑتے ہیں۔ چمن کا انگور پہلے ہی استعارہ بن گیا ہے مگر دسمبر آتا ہے تو بے اختیار لیاری یاد آتا ہے،وہی لیاری کراچی کی پہلی بستی ! کہا جاتا ہے کہ تین صدیاں پہلے ساحلِ سمندر پر ماہی گیروں کی بیس پچیس جھونپڑیوں پر مشتمل یہ بستی کلاچی جو گوٹھ تھی،مکران کے تو ہم جیسے رنگ کے ہوں گے مگرایرانی بلوچستان سے آنے والے تانبے کی رنگت والے،محنتی جفا کش ،ان کی عورتیں بھی جال کی مرمت کرتے کرتے ساتھ تاڑی پینے والے شوہروں اور بیٹوں کی بھی مرمت کرتی ہوں گی ۔ لیاری والوں کا گھونسہ بہت مشہور ہے ابھی یہاں کی ایک باکسر عالیہ سومرو کے گھونسے نے تھائی لینڈ کی باکسر کو دن میں تارے دکھا دئیے ،پھر لیاری کے فٹ بال کے کھلاڑی دنیا بھر میں مشہور ہوئے، انہی میں سے کچھ ڈھاکہ کے محمڈن کلب کی ٹیم میں کھیلے جن کے کلکتہ کے موہن بگان کلب کے ساتھ معرکے بنگال میں’’دو قومی نظریے‘‘کی تجدید کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو جب فاطمہ جناح کے مقابلے پر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے لئے ووٹ مانگنے آئے تو لیاری والوں کی بے تکلف خفگی نے بھٹو کو سمجھا دیا کہ اگرکراچی میں سیاست کرنی ہو تو لیاری والوں کے دل میں گھر کرو یہ وہ بات ہے جو بے نظیر بھٹو کے بعد اب آصفہ بھٹو نے بھی سمجھی ہے کہ ان کے نانا نے ننانوے برس کی لیز پر لیاری کے لوگوں کو چار روپے فی گز کے حساب سے جو زمین دی ہے اس کے ماتھے سے منشیات اور جرائم کا داغ تبھی دور ہو گا جب تعلیم اور صحت کے ساتھ روزگار کے مواقع بھی ہوں گے۔ جب تک میں نے لیاری میں چاکیواڑہ نہیں دیکھا تھا مجھے محمد خالد اختر کا ناول’’چاکی واڑہ میں وصال‘‘ بھی سمجھ میں نہیں آیا تھا اور نہ ہی یہ کہ اس کے مشہور کھڈے میں کون سا کالج تھا جسکے پرنسپل فیض احمد فیض تھے اور انہوں نے پڑھنے کے شوقین احمد سلیم کو یہاں بلا کے داخلہ بھی دیا اور ملازمت بھی اور ساتھ ہی ساتھ عاشقی کے نصاب کے کچھ سبق خود پڑھائے۔ ممکن ہے آپ نے’’صدائے لیاری‘‘کے چیف ایڈیٹررمضان بلوچ کی کتاب’’لیاری کی ادھوری کہانی ‘‘پڑھی ہو آپ کی سمجھ میں آیا ہو گا کہ جام صادق پل میں کیوں گڑھے پڑ جاتے ہیں اور کیوں تاج حیدر روڈپر سے گزرنے والے کو شفقت بھری مسکراہٹ کا دلاسہ ملتا ہے؟ اس کتاب میں سے ایک اقتباس دیکھئے:

’’منصور عثمانی نے اپنی مقبول نظم ؛یہ واجہ وڈیرے،یہ غنڈے لٹیرے سنانا شروع کی توپولیس پارٹی نے ہلہ بول دیا کچھ لوگ چاکی واڑہ کی جانب دوڑے ہم شاہ بیگ لین میں دوڑے جہاں ایک نکاح پڑھایا جا چکا تھا مگر مراد بخش سربازی نے کہا بھائیو ہمیں پولیس پکڑنے آ رہی ہے دوبارہ دعا کے لئے ہاتھ اٹھائیں‘‘ اسی کتاب میںبڑے غلام علی خان جب پاکستان میں تھے تو وہ یہاں مہدی حسن کے ساتھ آئے اور ایک رات کلاسیکی موسیقی لیاری میں سنی گئی ،مہدی حسن نے بھی غزل گائیکی سے لیاری والوں کے دل گرمائے۔

٭ ٭ ٭

کراچی میں کتب کی نمائش کا عالمی میلہ ہو رہا ہے جہاں جی چاہتا ہے کہ نقاہت کے باوجود اڑ کے پہنچوں۔ میرا جی چاہتا ہے کہ نگارشات کے اسٹال پر کھڑا ہو کے ہانک لگائوں کہ یہاں نامور مورخ ڈاکٹر مبارک علی کی کتابیں ہیں جنہوں نے’’تاریخ‘‘کے نام سے جریدہ نکالا اور کئی نسلوں کو شعور دیا اوراختر حسین رائے پوری، علی عباس جلال پوری، پروفیسر کرار حسین ، محمد علی صدیقی،جعفر احمد،سلیم احمد اور اسلم گورداس پوری کی کتابوںسے پیار کرنا سکھایا۔ مکتبہ آج کے اسٹال پر جا کے ہانک لگائوں غازی صلاح الدین کی کہانیوں کا مجموعہ ’’جینے کی پابندی‘‘ پڑھو جن کو سب سے زیادہ پڑھاکو کا انعام مل چکا ہے ،یہ انجمن ترقی اردو پاکستان کی مطبوعات ہیں اور وہ تراجم ہیں محمد حسن عسکری کے مگر نام ایک خاتون کا لکھا ہے جن کے بارے میں صرف آفتاب حسین(صحبتِ نازک خیالاں) ہی لکھ سکتے تھے کہ کیسے انہوں نے تجرد پسند عسکری کی چلہ کشی میں خلل ڈالا تھا۔

تازہ ترین