میں پاکستان ہوں میں پاکستان ہوں، اور دکھ میری رگوں میں بہہ رہا ہے۔دسمبر آئے تو یہ دکھ جمنے لگتا ہے۔پاکستان پر دکھ کا مسلسل قبضہ ہے۔جب میں نے پہلا سانس لیا، تو درد ایک لہر بن کر میرے بدن میں دوڑ گیا۔اور یہ دکھ کوئی ایسی موج نہیں جو وقت کے ساتھ مٹ جائے۔یہ تو نسلوں کی ہڈیوں میں اتر گیا ہے۔یہاں لاکھوں لوگ جلتی ہوئی سرحدوں کے پار ننگے پاؤں چلتے ہوئے آئے۔پہلی اینٹ رکھنے سے پہلے ہی خون نے مٹی کو بھگو دیا۔پھر بھی قوم کھڑی ہوئی کانپتی، کپکپاتی، مگر آگے بڑھتی رہی۔لیکن دکھ سے کبھی نجات نہ مل سکی۔دکھ بس اپنی شکلیں بدلتا رہا۔میرے دریاؤں نے پانی سے زیادہ آنسو بہائے ہیں۔
میرے پہاڑوں نے بیٹوں کو جاتے ہوئے تو دیکھا،مگر لوٹتے کبھی نہیں دیکھا۔میرے شہروں نے بھی سیکھ لیا ہےکہ دھول بن جانے کے بعد کیسے دوبارہ کھڑا ہونا ہے۔اس وقت میں، یعنی پاکستان، آٹھویں دہائی سے گزر رہا ہوں۔ہر دہائی نے ریلیف کا وعدہ کیا،مگر ہر دہائی نے ایک اور امتحان بخش دیا۔
ایک غریب ماں خالی لنچ باکس کے ساتھ بس اسٹاپ پر انتظار کر رہی ہے،اس امید پر کہ اس کا بیٹا اس شہر سے واپس آئے گاجو خواب کھا جاتا ہے۔کسان پھٹی ہوئی زمین کو دیکھتا ہےاور آسمان کی طرف دیکھ کر سوچتا ہےکہ شاید اسے یاد رکھا جائے۔استاد بلا معاوضہ تنخواہ لے کر حب الوطنی کا درس دیتا ہے۔ڈاکٹر مریضوں کا علاج کرتا ہے،یہ سوچتے ہوئے کہ اپنا مستقبل کیسے بچایا جائے۔ پاکستان ہم سب کے سینوں میں دھڑکتا ہے۔یہ اس دکاندار کے دل میں بھی رہتا ہےجو ایک دھماکے کے بعد اپنی دکان کھولتا ہےاور سرگوشی کرتا ہے:’’اللّٰہ مالک ہے۔‘‘یہ اس لڑکی کے خوابوں میں بھی بستا ہےجو موم بتی کی روشنی میں پڑھتی ہےکیونکہ تعلیم، مایوسی کے خلاف اعلانِ بغاوت ہے۔یہ اس مزدور کے سینے میں بھی رہتا ہےجو یومِ آزادی پر جھنڈا اٹھاتا ہے،اس وقت بھی جب اس کی جیبیں خالی ہوں۔وہ سارا سال جیب و گریبان کی دھجیاں جمع کرتا ہےکہ اگست آئے گاتو جھنڈیاں بنا ئوں۔اسی سرزمین پر ایک نوجوان بھی ہےجو ملک چھوڑنا چاہتا ہے۔اس کے ہاتھ میں ویزا کی فائل ہے،آنکھوں میں مستقبل کی تصویر،اور دل میں ایک مستقل خوف۔وہ رات کے آخری پہر خاموشی سےماں کے کمرے کے دروازے پر رک جاتا ہے۔ماں سو رہی ہوتی ہے،مگر اس کے ہونٹ ہل رہے ہوتے ہیں۔وہ دعا مانگ رہی ہوتی ہے۔نوجوان ایک لمحہ ٹھہرتا ہے،فائل سینے سے لگاتا ہے اور سوچتا ہے:کیا کسی دعا کو چھوڑ کر جانا آسان ہوتا ہے؟اور وہ رک جاتا ہے۔اسی پاکستان میں ایک باپ بھی ہےجو اپنے شہید بیٹے کی قبر پر کھڑا ہے۔قبر پر تازہ مٹی ہے،پرچم ہے،اور خاموشی ہے۔باپ ہاتھ اٹھاتا ہے،مگر آنسو بیٹے کے لیے نہیں،ملک کے لیے گرتے ہیں۔وہ کہتا ہے:’’یا اللّٰہ، یہ وطن سلامت رہے۔میرے بیٹے کی جان قبول ہو گئی،اس مٹی کی حفاظت بھی قبول فرما۔‘‘
اور کہیں ایک طالب علم پاسپورٹ آفس کی لمبی قطار میں کھڑا ہے۔قطار آگے بڑھتی ہے،دل پیچھے رہ جاتا ہے۔وہ سوچتا ہے:اگر میں چلا گیا، تو یہ دکھ کون اٹھائے گا؟اور اگر میں رک گیا،تو یہ خواب کون پورے کرے گا؟پاکستان انہی سوالوں کے بیچ سانس لیتا ہے۔اس سرزمین کو تاریخ، معاشیات، آفات اور خود قسمت نے آزمایا ہے۔پھر بھی میں کھڑا ہوںزخمی، تھکا ماندہ۔اگرچہ مسلسل جبر نے میرے قویٰ مضمحل کر دیے ہیں،پھر بھی میں کھڑا ہوں۔میں اپنے بچوں سے ہر صبح،ہر موڑ پر چیخ چیخ کر کہتا ہوں:مجھے تالیوں کی ضرورت نہیں۔میرا پیٹ ترانوںسے نہیں بھرتا۔مجھے انصاف چاہیے۔ مجھے ایمانداری چاہیے۔
ہائے ہائے، دسمبر آ چکا ہے۔دکھ رگوں میں جم رہا ہے۔آؤ، مل کر سقوطِ مشرقی پاکستان کو یاد کریں۔ہم صدیوں سے محرم مناتے آ رہے ہیں؛یہ ہمارے لیے کوئی مشکل مرحلہ نہیں۔ہم اس سے آنکھیں کیوں چرا لیتے ہیں؟جب ہم مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سوگ منائیں گے،تو بھارت کی رگوں میں خوف دوڑ جائے گا،اور ہمارے بنگلہ دیشی بھائیوں کی روح کو سکون ملے گاکہ ہم اپنی غلطیوں کو بھولے نہیں۔ہم نے اکہتر کے دسمبر کا درد یاد رکھا ہے۔اس درد کو جو مشرقی پاکستان کے رہنے والے پاکستانیوں نے برداشت کیا۔اللہ نہ کرے پھر کسی قوم پر وہ عذاب نازل ہو۔درد کی شدت اتنی تھی کہ اس پاکستان میں رہنے والے پاکستانیوں نےبنگلہ دیش کا لباس پہن لیایہ لباس اس وقت ان کے لیےبلٹ پروف جیکٹ سے کم نہ تھا۔مجھے پشاور کے اسکول میں بچوں کے بکھرتے وجودکبھی نہیں بھول سکتے۔مجھے محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت ہمیشہ یاد رہتی ہےچاہے دسمبر آئے یا نہ آئے۔مجھے ذوالفقار علی بھٹو بھی کبھی نہیں بھولا۔فاطمہ جناح بھی کئی بار میرے خواب میں آئی ہیں۔لیاقت علی خان کو بھی یہ قوم نہیں بھول سکتی۔اور بابائے قوم محمد علی جناح زیارت سے کراچی آتے ہوئےایک ٹوٹی ایمبولینس میںہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔وقت کے گورنر جنرل،ایک ڈرائیور،اور فاطمہ جناح کے ساتھ۔ زندگی کا یہ آخری سفرہمیں بار بار یہی یاد دلاتا ہےکہ ایک دکھ ہم پر قابض ہےجس سے ہم اب تک نکل نہیں پائے۔بے شک،بڑے دکھ بڑے لوگ ہی اٹھاتے ہیں۔چھوٹے لوگ بڑے دکھ اٹھانے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔اور ہم پاکستانی ایک بڑی قوم ہیں۔