خواجہ محمد آصف تضادستانی سیاست اور صحافت کی رونق ہیں، وہ کچھ نہ کچھ ایسا کہتے رہتے ہیں کہ جس سے سیاسی سکوت کے سمندر میں لہریں پیدا ہوجاتی ہیں۔ خواجہ صاحب زبردست مہم جُو اور بہترین پیراک ہیں، ہر سال موسم گرما میں نیکر پہنے دوستوں کے ہمراہ دریا میں چھلانگ لگانے کی ان کی سالانہ تصویر سیا لکوٹی ثقافت کی ترجمان ہوتی ہے۔ جس طرح وہ ڈھلتی عمر کے باوجود بے دھڑک دریا میں کودتے ہیں سیاست پر ان کے تبصرے بھی ایسے ہی بے جھجک ہوتے ہیں، علم نہیں کہ وہ عاشق کیسے ہیں مگر اندازہ ہے کہ جس طرح وہ اختلافات کی آگ میں ’’چھال‘‘(پنجابی میں چھلانگ کو کہتے ہیں) مارتے ہیں ایسے ہی عشق کے دریا بھی آسانی سے پار کرجاتے ہونگے۔
حال ہی میں خواجہ نے نئی چھال ماری ہے، ہوسکتا ہے کہ چال ہو مگر اقتدار کے ناپائیدار ایوانوں میں اس چھال نے ہلچل مچادی ہے۔ ادھر فیض حمید کا کورٹ مارشل ہوا اُدھر خواجہ آصف نے جنرل باجوہ کے احتساب کا بھی مطالبہ کردیا۔ ممکن ہے کہ خواجہ صاحب نے شغل میں ہی یہ تار چھیڑ دی ہو مگر اس تار کی گھنٹیاں بہت دوراور ماضی تک پہنچیں۔ ان کے مطالبے کا مطلب یہ لیا گیا کہ ایک فرد کا نہیں ہر اس فرد کا احتساب ہوگا جو ماضی میں سیاست میں مداخلت کا مرتکب ہوتا رہا ہے۔ طاقت کے مراکز کو مگر اپنے تجربات سے یہ سبق ازبر ہے کہ جب سب کے احتساب کا سفر شروع کردیا جائے تو اسکا صاف مطلب ہے کہ کسی کا بھی احتساب نہیں ہوگا۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ چونکہ سب کا احتساب عملی طور پرکبھی ممکن ہی نہیں ہوتا اس لئے جب سب کے احتساب کا نعرہ لگتا ہے تو جس مخصوص فرد کا احتساب ہورہا ہوتا ہے اس کے بارے میں گمان پیدا ہوجاتا ہے کہ ملزم تو سب تھے یہ بیچارا اکیلا ہی بھگت رہا ہے، اسی لئے اس بیان کو سنجیدہ تبصرے کے طور پرلیا گیا اور باقاعدہ وضاحت آگئی کہ جنرل باجوہ کے احتساب یا انکے خلاف مقدمہ چلانے کا کوئی معاملہ نہ سرے سے زیر غور ہے اور نہ ہی انکے خلاف اس طرح کا کوئی ثبوت سامنے آیا ہے جس سے یہ ثابت ہوکہ فیض حمید کی ناجائز کارروائیوں میں وہ بھی شریک کارتھے۔
دلچسپ امریہ ہے کہ خواجہ آصف، مسلم لیگ نون کے اُن ایک دور ہنماؤں میں شامل تھے جو عمران خان دور میں جنرل باجوہ اور انکے سسر جنرل اعجاز امجد سے مسلسل رابطے میں رہتے تھے، ان سے نامہ وپیام جاری رکھتے تھے اور خواجہ صاحب کو یہ ’’ اعزاز‘‘ بھی حاصل تھا کہ نون لیگ کی پارلیمانی پارٹی کو جنرل باجوہ کی توسیع کے نواز شریف کے فیصلے کی اطلاع بھی انہوں نے دی تھی اور اسکے خوش نما جواز بھی پیش کئےتھے۔
خواجہ آصف وہ سیالکوٹی منڈے ہیں جن کیلئےشایدیہ گیت’’وےمنڈیا سیالکوٹیا‘‘ لکھا گیا تھا، وہ سیاست میں تاک تاک کر تیر چلاتے ہیں کبھی اپنے مخالف کی ناک اڑاتے اور کبھی کبھی اپنی صفوں کی آنکھ بھی پھوڑ دیتے ہیں، کبھی مقتدرہ کو ناراض کرتے ہیں توکبھی دفتر خارجہ میں سرخ بتیاںجلنے لگتی ہیں۔ جب ہائبرڈ نظام کا اعلان کرتےہیں تواپنی ہی پارٹی کی کابینہ کی بے بسی کھول دیتے ہیں، تضادستان کی جنگ میں غلطیوں کے دفتر کھولتے ہیں تو ماضی کی مقتدرہ کے دل کے پھپھولے پھوڑدیتے ہیں۔ کبھی اپنے ہی، کابینہ کے، ساتھی حنیف عباسی کو خفا کرتے ہیں تو کبھی کبھی پوری حکومت کو مشکل میں ڈال دیتے ہیں۔ چند ماہ پہلے ایسی ہی کسی ’’ شرلی‘‘ پر سنجیدگی سے غور کیا گیا کہ انہیں دفاع جیسے اہم اور حساس ترین عہدے سے ہٹاکر کسی کم حساس محکمہ کا اختیار دیدیا جائے تاکہ وہ بیانات بھی دیتے رہیں اور حکومت کیلئے کوئی پریشانی بھی پیدا نہ ہو۔ بعد ازاں میاں نواز شریف نے اس تبدیلی کی اجازت نہ دی۔
حالیہ دنوں میں جب خواجہ آصف نےجنرل باجوہ کے خلاف راگ چھیڑا توپہلے سے ہی فضا میں نواز شریف کے الفاظ کے ساز بکھرے ہوئے تھے جن میں یہ مطالبہ شامل تھا کہ فیض حمید کے بعد انکو میدانِ سیاست میں اُتارنے والے باقی کرداروں کا بھی احتساب کیا جائے۔ اکثر سیاسی حلقوں میں ان دونوں الگ الگ بیانوں کو ملا کر دیکھا اور پڑھا گیا جس سے لگاکہ مستقبل کی نونی تان یہی ہوگی۔ جنرل باجوہ کواس بیان سے جہاں تشویش ہوگی وہاں صدمہ بھی ہوا ہوگا کہ یہ بیان کسی اور نونی کا نہیں بلکہ انکے پرانے مہربان اور نامہ بر خواجہ آصف کا ہے۔ پھر سیاسی ڈوریاں ہلیں۔ وہی نام جنہوں نے جنرل باجوہ سے آخری دن نئے آرمی چیف کی فہرست خود اپنے ہاتھ سے وصول کرکے وزیر اعظم ہاؤس پہنچائی تھی، وہ دوبارہ سرگرم ہوئے اہل ِحکومت وسیاست کو بار بار مل کر سمجھایا کہ خواجہ آصف اپنی ہی صفوں کو توڑنا چاہتے ہیں، وہ ماضی کے قومی سربراہوں یا افسروں کو کٹہرے میں لانا چاہتے ہیں تو اس سے نہ صرف مقتدرہ میں بے چینی پھیلے گی بلکہ نون اور مقتدرہ کے درمیان موجود انڈرسٹینڈنگ کو بھی شدید نقصان پہنچے گا ۔کہا جاتا ہے کہ جنرل باجوہ کے محب اپنی کوششوں میں کامیاب ہوگئے ہیں خواجہ آصف کے بیان کی ابھی گونج باقی تھی کہ ان کی آواز دبادی گئی اور اب راوی پھر سے چین لکھ رہا ہے۔
خواجہ آصف چونکہ چھلانگوں میں ماہر ہیں ،نشانے بھی خوب لگاتے ہیں اس لئے ان کے اتحادی اور مخالف دونوں فریقوں میں حاسدین موجود ہیں کچھ تواس سیالکوٹی منڈے سے، میدانِ حسن میں سب سے بڑی ٹرافی جیتنے پر ،حسدمیں مبتلا ہیں۔ خواجہ صاحب کے پاس لازماً گیدڑسنگھی ہے جسکی وجہ سے وہ جب سے میدان سیاست میں آئے ہیں ہر بار جیتتے رہے ہیں کئی وزارتوں کے مزے لے چکے ہیں اور احتساب اور جیل کے کڑے امتحانوں سے بھی گزر چکے ہیں وہ جب بھی حسن کے میدان کا کوئی قلعہ سرکرنا چاہتے ہیں تو ایک ماہر نیزہ باز کی طرح بے آواز ، بے خوف اور بے باک وار کرکے کلہ اڑا کر لے جاتے ہیں کہ تماشائی اور دیگر نیزہ باز منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
خواجہ آصف شطرنج کے ماہر ہیں یا نہیں مگر سیاست کی چالیں خوب چلتے ہیں ہر الیکشن میں وہ اپنا انتخابی پینل بدل دیتے ہیں نئے چہرے اور کلین سلیٹ کے ساتھ وہ ہر بار حریف کو شاہ مات دے دیتے ہیں2018ء میں تو مشہور ہوا تھا کہ انہوں نے جنرل باجوہ سے الیکشن میں ہرائے جانے کی شکایت کی تھی جسکے مداوےکے طورپر جنرل باجوہ اور خواجہ آصف کا قریبی تعلق ظاہر ہوگیاتھا مگر جنرل باجوہ کے دور میں ہی خواجہ آصف ابتلا کا شکار بھی رہے شاید یہی وجہ ہے کہ قریبی تعلقات کے باوجود انہیں جنرل باجوہ سے شکایتیں بھی ہیں اسی لئے تو وہ ان کے احتساب کا مطالبہ کررہے ہیں۔
خواجہ آصف کی چھلانگیں، شہباز شریف کے شانت طرز حکومت سے ذرا میل نہیں کھا رہیں۔ شہباز شریف نے اتحادیوں اور حکومت کی اندرونی لڑائیوں پر مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے، حد تو یہ ہے کہ وہ خواجہ آصف سے بھی ان کی چھلانگوں پر گلہ نہیں کر رہے بس ہر وقت آگ پر پانی ہی ڈالتے رہتے ہیں۔