قیادت کے اوصاف پر بہت کچھ لکھا گیا مگرمیری دانست میں قائدکو خودسر،سرکش اور جنگجو ہونا چاہئے اور ان تین عوامل کو جمع کریں تو سادہ زبان میں یہ دیوانگی کہلاتی ہے۔ عوامی جمہوریہ چین کے قائداور کیمونسٹ پارٹی کے بانی مائوزے تنگ بھی شوریدہ سر تھے ۔انکے لانگ مارچ کے قصے آج تک بیان کئے جاتے ہیں۔چینی باشندوں کو آزادی دلانے تک تو آشفتہ سری ضروری تھی مگر نوزائیدہ مملکت کی تعمیر و ترقی کیلئے جُنوں کے بجائے خرد درکار تھی،قائد کے بجائے اچھے منتظم ہی ملک کو آگے لے جاسکتے تھے ۔انقلابی شخص بیکار نہیںبیٹھ سکتا ،وہ ہر وقت مضطرب اور بے چین رہتا ہے ۔مائوزے تنگ کو بھی یہی صورتحال درپیش تھی چنانچہ 1949ء سے1976ء تک وہ سوار اشہب دوراں کی طرح نہایت متحرک و فعال رہے ۔ولندیزی مورخ Frank Dikötterنے اپنی کتاب ’’Mao's Great Famine, Tragedy of Liberation, Cultural Revolution‘‘کا آغاز ہی اس جملے سے کیا ہے کہ 1956ء اور1962ء کے درمیان چین جہنم بن چکا تھا۔مائوزے تنگ کی ’’گریٹ لیپ فارورڈ ‘‘جسے آج ایک عظیم سوچ کے طور پر بیان کیا جاتا ہے ،اس مہم نے پورے ملک کو شدید ترین غذائی بحران اور قحط میں مبتلا کردیا ۔اس دوران 1.25کروڑ لوگ مارے گئے۔مائو کی مہم ’’آگے کی جانب ایک عظیم پھلانگ‘‘کا ایک حصہ جانوروں اور پرندوں سے متعلق تھا ۔مائو نے اعلان کیا کہ جو جانور ،حشرات ،چرند یاپرند ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے۔ابتدائی طور پر چوہوں ،مچھرو ں اور چیونٹیوں کو اس فہرست میں شامل کیا گیا اور پھر چڑیوں کی شامت آگئی ۔اچانک مائوزے تنگ کو خیال آیا کہ چڑیاں اناج کھاجاتی ہیں،اگر انہیں ختم کردیا جائے تو گندم کا ہر دانہ میرے لوگوں کے کام آسکتا ہے ۔بس پھر کیا تھا،پورے ملک میں چڑیاں مارنے ،ان کے گھونسلے توڑنے اور انڈے تلف کرنے کا کام شروع ہوگیا۔اس طرح کے مجہول اقدامات سے چین میں فطری توازن بگڑ گیا اور بہت جلد ٹڈی دل نے حملہ کردیا۔اس افتاد کی وجہ یہ تھی کہ چڑیوں کی نسل معدومیت کے دہانے تک پہنچ گئی ۔ماہرین کے مطابق چڑیاں ٹڈی دل کھاتی ہیں ،جب انہیں ختم کردیا گیا تو ٹڈی دل کے لشکر حملہ آورہونے لگے۔اب جب اس احمقانہ فیصلے کے مضمرات کا اندازہ ہوا تو نہ صرف یہ کہ چڑیا کو اس فہرست سے نکال دیا گیا بلکہ روس سے لاکھوں چڑیاں درآمد کرکے ان کی نسل بڑھانے کی کوشش کی گئی ۔اب کھٹملوں کی باری آگئی اور انہیں ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھ کر تلف کرنے کی مہم شروع ہوگئی ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مائوزے تنگ کی سرگرمیاں محدود کرنے کیلئے یہ خبر مشہور کردی گئی کہ ان کی صحت ٹھیک نہیںاور وہ آرام کررہے ہیں مگر مائوزے تنگ نے اپنے آپ کو تندرست ثابت کرنے کے لئےدریا میں چھلانگ لگا دی اور طویل ترین دریا کو تیر کو عبور کرنے کا مظاہرہ کیا۔قصہ مختصر یہ کہ جب تک مائوزے تنگ زندہ رہے ،ان کی انقلابی جدوجہد کے باعث ترقی و خوشحالی کے سفر کا آغاز نہیں ہوسکا۔اس تمہیدکا پس منظر یہ ہے کہ معروف کالم نگار جاوید چوہدری کے ہاں ملکی حالات پر تبادلہ خیال کے دوران تھل یونیورسٹی بھکر کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سعید احمد بزدار نے خود ترحمی کے انداز میں سوال اُٹھایا کہ وطن عزیز کو کب کوئی اچھا قائد دستیاب ہوگا۔اس پر جاوید چوہدری نےکہا کہ پاکستان کو لیڈر نہیں اچھے منیجر کی ضرورت ہے ۔
محولا بالا گفتگو کے بعد میں نے اس نہج پر سوچنا شروع کیا تو یہ تصور بتدریج پختہ تر ہوتا چلا گیا۔ملائیشیا میں مہاتیر محمد نے قائدانہ کردار اداکیا لیکن جب وہ عملی سیاست سے سبکدوش ہونے پر تیار نہ ہوئے تو ملائیشیا کو ان کی قائدانہ علت و جبلت کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔اس حوالے سے دیگر کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں مگر میں پاکستان کے تناظر میںکچھ حقائق آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔جب ایک نیا ملک بنانا تھا تب ہمیں قائداعظم محمد علی جناح جیسا لیڈر درکار تھا،یہ مشن مکمل ہوگیا تو پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کو زیارت تک محدود کردیا گیاکیونکہ برگد کے بڑے درخت کے سائے میں نئے پودے پروان نہیں چڑھ سکتے تھے ۔بعدازاں ہمیں ذوالفقار علی بھٹو کی شکل میں ایک لیڈر میسر آیا جسے قائد عوام کہا گیا ۔اب لیڈر تو دنیا کا نقشہ بدلنے آتے ہیں ،چنانچہ قائدعوام ذوالفقار علی بھٹو کے ظہو ر سے پاکستان دولخت ہوگیا یقیناًوہ تنہا اس سقوط کے ذمہ دار نہ تھے مگر وہ قائد کے طور پر اُبھر کرسامنے نہ آتے تو شاید مشرقی پاکستان الگ نہ ہوتا ۔ہاں ،یہ کریڈٹ بھٹو کو جاتا ہے کہ انہوں نے باقیماندہ پاکستان کی نئی بنیادیں استوار کیں۔2010ء میں عمران خان کو ایک نئے قائد کے طور پر متعارف کروایا گیا۔انہوں نے ’’نیا پاکستان ‘‘بنانے کا عزم ظاہر کیا ۔بلاشبہ عمران خان میں قائدانہ ’’پاگل پن‘‘بدرجہ اتم موجود ہے ،وہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔لیکن نیا پاکستان بنانے کیلئے پرانے پاکستان کو تباہ و برباد کرنا ضروری تھا ۔انہوں نے اقتدار میں رہتے ہوئے سب کچھ ملیامیٹ کرنے کی بھرپور کوشش کی تو ان کے پیش کاروں نے خائف ہوکر حکومت ختم کردی لیکن اب وہ زیادہ ’’خطرے ناک‘‘ہوگئے ہیں اور اڈیالہ جیل سے پرانے نظام کو بیخ و بن سے اُکھاڑنے کے درپے ہیں۔چونکہ لیڈر تو تعمیر کیلئے تخریب کی طرف مائل ہوتا ہے ،وجود ہستی مٹا کر مرتبہ پانے کے فلسفے پر چل رہا ہوتا ہے ،لہٰذا لوگوں کو انقلاب کا ایندھن بنانے سے نہیں ہچکچاتا۔وہ اپنے راستے کی ہر رکاوٹ دور کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔اس کا مقصد وقت کے سانچوں میں ڈھلنا نہیں بلکہ وقت کے سانچے بدلنا ہوتا ہے تو خاکم بدہن مجھے جناب عمران خان کی قیادت سے خوف آتا ہے ۔مجھے انکی حد سے زیادہ آشفتہ سری ملکی سالمیت اور بقا کیلئےخوش آئند دکھائی نہیں دیتی ۔اگر ہمیں ترقی کرنی ہے،آگے بڑھنا ہے تو شوریدہ سر قائد نہیں قابل اور باصلاحیت منتظم درکار ہیں ۔ورنہ ’’چڑی مار‘‘انقلابی قائد تو نیا ملک بنانے اور آزادی دلانے کے کام آتے ہیں ،ملک چلانے کیلئے ان کی ضرورت نہیں ہوتی۔