کرہ ارض خالق کائنات کی صناعی کا ایسا شاہکار ہے جس کا دو تہائی حصہ پانی اور ایک تہائی خشکی پر مشتمل ہے۔ محققین نے سائنسی علوم کی بدولت اس راز سے پردہ اٹھایا ہے کہ پانی اتنا زیادہ اور خشکی اتنی کم کیوں پیدا کی گئی؟ اس کی بڑی وجہ یہ بتائی گئی کہ اصل میں پانی ہی زندگی ہے۔ آب حیات کے تصور نے بھی اسی سے جنم لیا۔ انسان ہوں یا حیوان، نباتات ہوں یا جمادات،شجر ہوں یا حجر، پانی کی بدولت زندہ ہیں اور نشوونما پارہے ہیں۔ قدرت نے یہ انمول تحفہ اپنی ہر طرح کی مخلوق کو مفت عطا کیا ہے لیکن مفت کی چیز کی اتنی قدر نہیں کی جاتی اسے مفت میں اور بلاوجہ اتنا ضائع کیا گیا کہ آج سائنس دان اور عالمی ادارے چیخ اٹھے ہیں کہ پانی کی حفاظت کرو۔ ا سے یونہی ضائع کیا جاتا رہا تو آنے والے و قتوں میں یہ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گا۔ پینے کے لئے صاف پانی کی قلت تو ابھی سے نظر آنے لگی ہے ۔ دنیا کی آبادی جس رفتار سے بڑھ رہی ہے پانی کے ذخائر بھی اسی رفتار سے ختم ہورہے ہیں۔اس وقت ان ذخائر میں کمی کی سالانہ شرح 3؍ فیصد بتائی جاتی ہے آگے چل کراس میں اور اضافہ ہونے والا ہے پھر 3؍ فیصد کمی تو ان علاقوں میں ہورہی ہے جو پانی سے مالا مال سمجھے جاتے ہیں، خشک علاقوں میں یہ شرح 10؍ فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ ہر سال 324؍ کیوبک میٹر تازہ پانی کم ہورہا ہے جو 28؍ کروڑ لوگوں کی ضرورت پوری کرسکتا ہے۔ آبادی میں اضافے کی شرح کے اعتبار سے پانی کی کھپت تو مسلسل بڑھ رہی ہے لیکن قابل استعمال 98؍ فیصد پانی ضائع ہورہا ہے۔ پاکستان ان آٹھ ممالک میں شامل ہے جہاں پانی سب سے زیادہ ضائع کیا جاتا ہے۔ آج جب ملک کے مختلف علاقوں سے پانی کی قلت کی خبریں آتی ہیں توان پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے اور انہیں آنے والے مشکل و قت کا نقارہ سمجھنا چاہئے۔
چند روز قبل ملک میں کسانوں کا عالمی دن منایا گیا۔ اس موقع پر کاشتکاروں کی حالت زار کے علاوہ زرعی شعبے کی ترقی، غذائی تحفظ اور پانی کی بڑھتی ہوئی قلت کا ذکر بھی کیا گیا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ زرعی اجناس کی پیداوار کے لئے ہمارے ملک میں سب سے زیادہ ضرورت پانی کی ہے اس کے بعد صنعتوں کی باری آتی ہے ان دو نوں شعبوں میں اتنا زیادہ پانی استعمال ہونے کے علاوہ ضائع ہوتا ہےکہ ملک کی 80؍ فیصد آبادی پینے کےصاف پانی تک رسائی حاصل نہیں کرپاتی۔ بڑھتی آبادی کے لئے پانی میں ضرورت تو اضافے کی ہے مگر در حقیقت اس میں مسلسل کمی ہورہی ہے۔ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے زراعت معاشرے کی شہ رگ ہے، ایک وقت تھا زیر زمین پانی سے انسانی آبادی کی تمام ضرورتیں پوری ہوجاتی تھیں، پانی مفت تھا، لیکن اب پیسے خرچ کرکے بھی ضرورت کے مطابق پانی نہیں ملتا۔ ٹیکنالوجی کے فروغ نے زمین کے اندر موجود ذخائر ہڑپ کرنا شروع کئے تو پانی کی قلت بڑھنے لگی ۔ موسمیاتی تبدیلی، گلیشیرز کے پگھلاؤ اور اس طرح کے کئی دوسرے عوامل نے پانی کی قلت کو عالمی بحران میں تبدیل کردیا۔ آج کوئی ملک ایسا نہیں جو اس مسئلے پر فکرمند نہ ہو۔ پانی کا معیار گررہا ہے اور اس کی دستیابی بھی مشکل سے مشکل تر ہورہی ہے۔ تین کروڑ سے زیادہ آبادی کے شہر کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک وفاقی وزیر کا کہنا ہےکہ اس غریب پرور شہر کے 90؍ فیصد لوگ پانی خرید کر پیتے ہیں۔ ایشیائی ترقیاتی بینک اور عالمی بینک نے اپنی تازہ رپورٹوں میں دنیا کو جھنجھوڑا ہے کہ صاف اور محفوظ پانی تک دنیا کی 8؍ ارب سے زائد آبادی کی رسائی ممکن بنانے کے لئے روایات سے ہٹ کر انقلابی اقدامات کئے جائیں اس کے لئے سب سے ضروری بات یہ ہے کہ پانی کو ناگزیر ضرورتوں کے لئے استعمال کیا جائے مگر پانی کوضائع نہ کیا جائے، نلکے کھلے نہ چھوڑ دیئے جائیں، ذخیروں کی حفاظت کی جائے، چشموں کی نگہداشت بڑھائی جائے، اسے آلودگی سے بچایا جائے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق آنے والے وقتوں میں عالمی جنگیں پانی کے مسئلے پر لڑی جائیں گی۔ بھارت پاکستان کے خلاف سندھ طاس معاہدے کے باوجود جس طرح آبی جارحیت کے راستے پر چل پڑا ہے اور پاکستان نے اسے اعلان جنگ کے مترادف قرار دیا ہے خطے میں اس طرح کی جنگ کے آثار روز بروز بڑھتے نظر آرہے ہیں۔بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر اور ہمالیائی علاقوں سے آنے والے دریاؤں کے پانی سے بھارت جو چھیڑ چھاڑ کررہا ہے کبھی چناب جہلم اور نیلم کا پانی روک دیتا ہے اور کبھی اچانک اسے چھوڑ کر پاکستانی علاقوں میں سیلاب کی کیفیت پیدا کردیتا ہے اس سے دونوں ملکوں میں جنگ کے خطرات روز بروز بڑھتے نظر آرہے ہیں۔ عالمی برادری کو جس کی بات بھارت اور اسرائیل جیسے ممالک کم ہی سنتے ہیں اس صورتحال کا نوٹس لینا چاہئے۔ جہاں تک مقامی سطح پر ملکوں کے لئے پانی کے بحران پر قابو پانے کا مسئلہ ہے تو اس کے لئے آبی نظم و نسق کو بہتر بنانے، آبی ذخائر میں اضافہ، ڈیمز کی منصوبہ بندی، بارش کے پانی کو محفوظ بنانے، جدید طریق آبپاشی کی ترویج، سیوریج ٹریٹمنٹ، پینے اور آبپاشی کے پانی کی منصفانہ تقسیم، ضیاع روکنے اور قیمتوں کے منصفانہ تعین کو یقینی بنانے کے لئے موثر اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس حوالے سے سرمایہ کاری کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے حکومت بیرونی ملکوں اور کمپنیوں سے معاہدے کررہی ہے جو مستحسن اقدام ہے۔ قومی اسمبلی میں بھی یہ مسئلہ اٹھایا گیا ہے اور حکومت نے مشاورت کے لئے اپوزیشن کو پیشکش کی ہے ایسی کوششوں کو مہمیز دینے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں پیش آنے والی مشکلات کا تدارک ابھی سے شروع کردیا جائے، اس میں جتنی تاخیر کی جائے گی بنی نوع انسان کے لئے اتنی ہی تباہ کن ہوگی۔