• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قیدیوں کا تقابل ہو سکتا ہے نہ سزاؤں اور نہ ہی منصفوں کا وہ تو اٹھارہ مارچ1978 تھا اور اب ستاون برس بعد کے دسمبر کا آخری عشرہ تھا مگر تب چار سے پانچ باتیں ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں بہت سوں کے دل پر نقش ہیں۔ الف۔ بھٹو بد عنوان نہیں تھا کروڑوں روپے کے وائٹ پیپرالمعروف کالا جھوٹ میں کوئی ایک واقعہ اس کی مالی بے ضابطگی کا نہیں۔کشور ناہید کی دونوں کتابوں میں درج ہے کہ جب اسکے یوسف کامران پر ایک امریکی کمپنی میںحساب فہمی کا کوئی ماجرا تھا اور یوسف پاکستان سے شاید دبئی چلے گئے تھے ،بھٹو تب وزیرِ خارجہ تھا،درخواست کی گئی کہ امریکی وزیرِ خارجہ سے کہا جائے تو بھٹو نے انکار کیا اور کہا کتنی رقم کا معاملہ ہے مجھے بتائیں میں اپنی جیب سے ادا کردوں گا۔ میں امریکی وزیر خارجہ سے یہ بات نہیں کہہ سکتا۔ ب۔بھٹو صاحبِ مطالعہ تھا تاریخ اس کی نظر میں تھی وہ نپولین کے بارے میں لکھی ہر کتاب پڑھتا تھا کہ آخر وہ اپنے جرنیلوں کو کیسے رام کر لیتا تھا تیسرے اسے یقین تھا کہ اس موقع پر’’دو جالندھری قصائیوں‘‘کے پاؤں پر گرنے سے بہتر ہے کہ وہ پھانسی چڑھ جائے ،یہ وقار اسے زندہ رکھے گا

ج۔ موت کی کال کوٹھڑی میں بیٹھا کاغذ کے پرزوں پر لکھ گیا’’ اگر مجھے قتل کیا گیا‘‘ جس میں اور باتوں کے علاوہ یہ دعویٰ بھی ہے کہ اگر میں جیل سے باہر ہوتا تو حسنی مبارک کو کیمپ ڈیوڈ معاہدے میں فلسطینیوں کو یوں بے یار و مددگار نہ چھوڑنے دیتا۔بھٹو بے شک وڈیرے کے بیٹا تھا مگر اسکی والدہ اس طبقے سے تعلق رکھتی تھی،جس طبقے کے لوگ آج بھی اس سے محبت کرتے ہیں،آکسفورڈ میں اس کے ساتھی پیلو مودی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ہم چار لوگ اکٹھے رہتے تھے بھٹو کے ذمے تھا کہ وہ صبح اٹھ کر بستر وغیرہ سمیٹے اور صفائی کرے وہ پابندی سے یہ کرتا تھا۔اسے کرکٹ سے بھی لگاؤ تھا ۔بچے سب کو پیارے ہوتے ہیں،مرتضیٰ کے مقابلے پر شاہنواز اسے پسند تھا کہ وہ خیمہ لگا کے زمین پر سو جاتا ہے مگر وزارت خارجہ میں آپرینٹس بے نظیر کو رکھا اور شملہ مذاکرات میں اسے ساتھ لے کر بھارت گئے اور بیٹی کے نام مکتوب میں بہت کچھ ہے ۔ پھر کہنے کو اسے پھانسی پر چڑھا دیا گیا مگراس کے آخری لمحات کے بارے میں کئی حکایتیں مشہور ہیں،اس راز کو محسن نقوی نے اور پراسرار بھی کر دیا اور کچھ کھول بھی دیا

ہماری لاش پہ ڈھونڈو نہ انگلیوں کے نشاں

ہمیں خبر ہے عزیزو یہ کام کس کا ہے

جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے وہ جب ورلڈ کپ جیت کے آئے تو وہ اس یونیورسٹی میں بھی آئے جہاں میں پڑھاتا تھا وائس چانسلر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ چوہدری کے اصرار پر میں نے کچھ باتیں بھی کیں کہ ورلڈ کپ میں ہماری دعائیں کافی پیچیدہ تھیں کہ سادہ لوح فرشتوں کی سمجھ میں نہیں آ سکتی تھیں،ہم فلاں فلاں سے جیت جائیں مگر بھارت اور ایک اور ٹیم فلاں فلاں میچ جیت جائے۔اس زمانے میں خان اپنی جماعت بنا چکے تھے میرے ایک دو شاگرد ہمارے ایک کامریڈ کی نگرانی میں ان کیلئے وہ میٹریل تیار کرتے تھے جو مبینہ طور پر جنرل حمید گل منتخب کرتے تھے تب راؤ رشید اور میاں ساجد رشید ان کی جماعت میں تھے وہی خان اعظم کو میری والدہ کی تعزیت کیلئے لے آئے کچھ رسمی کلمات کے بعد میں نے عادت کے مطابق انہیں کچھ سیاسی نکتے سمجھانے کی کوشش کی جس میں انہوں نے دلچسپی نہ لی اور پھر جو کچھ ہوا ہے مجھے دہرانے کی ضرورت نہیں، وہ سب پر عیاں ہے میری ایک بیٹی اور دو تین نواسیاں مجھ سے الجھ جاتے ہیں جب میں خان کی قیادت پر کچھ سوال اٹھاتا ہوں ہمیں مان لینا چاہئے کہ وہ ضدی ہیں، پارلیمانی جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے تاہم ہماری کرکٹ ٹیم میں عمران خان سے پہلے ایک کرکٹر تھا عبدالحفیظ کاردار جسے کپتان کہہ کے پکارا جاتا ہے انکے بھی کئی کامیاب کپتان آئے مگر حقیقت میں آج بھی کپتان کہا جائے تو عمران خان ہی مراد لیا جاتا ہے،اب یہ ہو نہیں سکتا کہ اتوار کے دن کپتان نے پاکستان کے نوجوان کرکٹروں کو ایشیا کپ میں بھارت کو ہراتے نہ دیکھا ہو اور ابھی چند دن ہماری قوم ہی نہیں وزیر اعظم ،صدر مملکت،وزیر داخلہ اور دیگر عمائدین بھی سرشار رہیںگے، کیا یہ مناسب موقع نہیں کہ کسی بھی بیک چینل ،جمائما بی بی ،سلیمان خان یاا سپیکر قومی اسمبلی کے ذریعے آئندہ قومی انتخابات،نئے الیکشن کمشنر وغیرہ کے امور پر گفت و شنید شروع ہوں،ابھی ان کے پاس اپنی سزاؤں کیخلاف اپیل کے فورم موجود ہیں۔

٭ ٭ ٭

میرا ارادہ تھا کہ آج تھامس ہارڈی کے ناول ’’ریٹرن آف نیٹو‘‘کےاس ترجمے کا ذکر کروں گا جو مختار پارس نے ’’زمیں زاد کی واپسی‘‘ کے عنوان سے کیا ہے اور انہیں ایم اے انگریزی میں علامہ مظہر سعید کاظمی نے پڑھایا تھا مگر غیر شعوری طور پر میں نے ڈی ایچ لارنس کے ناول دی کیپٹن ز ڈال اٹھا لیا ہے جو شاید کیا تو محمد حسن عسکری نے کیا تھا مگر انکی ایک پسندیدہ شاگرد سیدہ نسیم ہمدانی کا نام ہے۔اس وقت اس کے اختتامی حصے کےکچھ معنی خیز فقرے دیکھئے:’’میری عزت اور اطاعت اور ان کے ساتھ مناسب جسمانی احساسات میرے لئےتو یہی شادی کا مفہوم ہےاور بس‘‘

’’لیکن مناسب جسمانی احساسات محبت نہیں تو کیا ہے؟ عورت کسی بھی لمحےمیں اپنے شوہر کو گُڈابنا کے رکھ دیتی ہے اور یہی گڈا اس کا ہیروہوتا ہے ۔۔۔ کسی بیوی کا اسی لئے چاہے جانا کہ وہ اطاعت کرے مجھے منظور نہیں، تمہارے اس خیالِ خام کی داد دیتی ہوں،مہربانی کر کے مجھے وہ تصویر دو گے ،میں اسے جلانا چاہتی ہوں‘‘

تازہ ترین