• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز میں پی آئی اے کی نجکاری پر سوگ منایا جارہا ہے ،سینہ کوبی کرتے غم خوار کہتے ہیں،ہمارے ساتھ دھوکہ ہوا ہے ۔پی آئی اے کی ڈیل 135ارب روپے میں نہیں ہوئی ،سرکاری خزانے میں صرف دس ارب روپے آئیں گے باقی رقم تو پی آئی اے کو چلانے پر لگائی جائیگی۔ٹسوے بہاتے سوگوار وں کا استدلال ہے کہ پی آئی اے کے پاس 38جہاز ہیں ان میں سے ایک جہاز کی مالیت 10ارب روپے بنتی ہے اور حکومت نے پوری پی آئی اے اتنے کم پیسوں میں بیچ دی؟بعض ہمدرد تو نیویارک کے روزویلٹ ہوٹل کو بھی اس ڈیل میں شامل کرکے حکومت پر تنقید کررہے ہیں کہ 4000ارب روپے کا تو صرف روزویلٹ ہوٹل ہے تو پھر 10ارب روپے میں پی آئی اے کا سودا کیوں کیا گیا ؟یہ کاگے جنہیں مولانا ابوالکلام آزاد نے’’غبار ِخاطر‘‘میں دریوزہ گرانِ شہر سے تشبیہ دی ہے،انہیں کائیں کائیں کرنے سے فرصت ملے تو سمجھیں کہ جو کمپنیاں اور ادارے اثاثہ نہیں رہتے بلکہ بوجھ بن جاتے ہیں ،ان سے چھٹکارا کیسے حاصل کیا جاتا ہے۔آپ نے یہ تو سنا کہ پی آئی اے کے پاس 38مسافر طیارے ہیں مگر کسی نے یہ نہیں بتایا کہ ان میں سے صرف 18آپریشنل ہیں اور انکی حالت بھی ٹوٹ بٹوٹ کی موٹر کار جیسی ہے۔اور بھی آپ کو مکمل تفصیلات کا علم نہیں ورنہ شاید غم و اندوہ کی کیفیت کچھ اور ہوتی۔نہ صرف یہ کہ 135ارب روپوں میں سے لگ بھگ 125ارب روپے پی آئی اے میں ہی لگائے جائیں گے بلکہ حکومت نے جہازوںکی خریداری یا لیز پر عائد 18فیصد جی ایس ٹی میں بھی چھوٹ دیدی ہے۔یہی نہیں بلکہ پی آئی اے کے ذمہ واجب الادا 650ارب روپے کے واجبات اب پی آئی اے ہولڈنگ کے کھاتے میں چلے گئے ہیں۔پی آئی اے کے ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن ،میڈیکل بل اور مفت ایئر ٹکٹ کے اخراجات خریداروں کا درد سر نہیں ہونگےبلکہ یہ بوجھ بھی حکومت اُٹھائے گی ۔ہاں البتہ نیویارک کا روزویلٹ ہوٹل ،پیرس کاسکرائب ہوٹل اور چند دیگر اثاثہ جات اس نجکاری کا حصہ نہیں اور پی آئی اے ہولڈنگ کے زیر انتظام چلے گئے ہیں۔مین ہٹن میں روزویلٹ ہوٹل کی عمارت کو گرا کر جوائنٹ وینچر کے تحت کثیرالمنزلہ عمارت تعمیر کی جائیگی ،اسی طرح پی آئی اے کا کارگو آپریشن ،ٹریننگ کا شعبہ اور چند دیگر امور بھی خریداروں کے حوالے نہیں کئے جائیں گے۔لیکن محولا بالا تمام تر شرائط کے باوجود یہ بہترین ڈیل ہے ۔جنہیں لگتا ہے کہ یہ گھاٹے کا سودا ہے وہ نیلامی میں شریک ہوکر اس سے زیادہ بولی دیتے اور پی آئی اے خرید لیتے ۔

تلخ حقیقت یہ ہے کہ پی آئی اے کا سفید ہاتھی اس شرط پر بلامعاوضہ بھی دیا جاسکتا تھا کہ خریدار کے پاس اسے رکھنے کی جگہ ہو اوراس کے کھانے پینے کا بندوبست کرسکے ۔2013ء میں پی آئی اے کا خسارہ 44ارب روپے تھا جو 2021ء میں بڑھ کر 50ارب جبکہ 2022ء میں88ارب روپے ہوگیا۔پوری دنیا میں اس بات پر اتفاق ہے کہ حکومتوں کا کام کاروبار کرنا نہیں ۔گزشتہ دو دہائیوں میں ایئر انڈیا ، TAPایئر پرتگال ،یونان کی اولمپک ایئراور جاپان ایئر لائنز سمیت کئی ممالک کی فضائی کمپنیاں نجی شعبہ کے پاس چلی گئیں اور اسی فارمولے کے تحت نجکاری ہوئی جسے Clean Balance sheet transfer, Manadatory investmentماڈل کہا جاتا ہے۔یعنی نجی شعبہ کے حوالے کرنے سے پہلے واجب الادا قرضہ جات الگ کرکے ایئر لائن کو ماضی کے تمام جھمیلوں سے آزاد کردیا جاتا ہے اور سب کچھ ری سیٹ کرکے ایک ایسی کمپنی خریدار کے حوالے کی جاتی ہے جونئے سرے سے آغاز کرسکے ۔اسکے بدلے خریدار سے ضمانت لی جاتی ہے کہ کمپنی کو چلانے کیلئے کتنی سرمایہ کاری کی جائیگی۔

جس طرح حکومت پاکستان نے پی آئی اے کو’ جو ہے جہاںہے‘ کی بنیاد پر نیلام کرنے کی ناکام کوشش کی ،اسی طرح بھارتی حکومت نے بھی ایئر انڈیا کو 2001ء اور پھر 2018ء میں جزوی طور پر نجی شعبہ کو دینے کی پیشکش کر مگر بات نہ بن سکی۔اکتوبر2021ء میں ٹاٹا گروپ نے 2.4بلین ڈالر کے عوض ایئر انڈیا کے 100فیصد شیئرز خرید لیے۔تب بھارت میں بھی یونہی صف ِماتم بچھائی گئی ۔کہا گیا کہ 130مسافر طیاروں کی مالک ایئر انڈیا کوڑیوں کے مول بیچ دی گئی۔لیکن حکومت نے ان ناقدین کی پروا نہ کی کیونکہ ایئر انڈیا کا مجموعی خسارہ 9.5بلین ڈالر تک پہنچ چکا تھا اور حکومت کے پیش نظر یہ بات تھی کہ یومیہ 2.6ملین ڈالر نقصان اُٹھانا پڑ رہا ہے تو کیوںنہ یہ سفید ہاتھی کسی ایسے سرمایہ کارکے حوالے کردیا جائے جو اسکے اخراجات پورے کرسکے۔

بالکل اسی طرح حکومت پاکستان نےاحسن انداز میں پی آئی اے کو نجی شعبہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا تو ہر شخص اپنی بساط کے مطابق لعن طعن کررہا ہے ۔کوئی کہہ رہا ہے اتنے اثاثہ جات ہیں ،کوئی یہ نشاندہی کررہا ہے کہ پی آئی کے پاس 64انٹرنیشنل روٹ تھے جو سب سے قیمتی اثاثہ ہیں۔ان ناقدین کی مثال ان رشتہ داروں کی ہے جو غریب گھرانے کی پڑھی لکھی بیٹی کو اس لیے قبول نہیں کرتے کہ یہ لوگ جہیز میں کچھ نہیں دے سکتے ۔لڑکی کی عمر ڈھلتی جاتی ہے ،والدین کسی ایسے عمر رسیدہ شخص کے ساتھ رشتہ طے کردیتے ہیں جو پہلےسے شادی شدہ ہوتا ہے۔اب یہ رشتہ دار برساتی مینڈکوں کی طرح باہر نکل آتے ہیں اور آسمان سر پر اُٹھا لیتے ہیں کہ تم نے یہ کیا کردیا،ہم مرگئے تھے کیا،یہ بے جوڑ شادی کرنے کے بجائے ہمیں بتایا ہوتا تو کوئی معقول رشتہ ڈھونڈدیتے۔پی آئی اے کے رشتہ داروں کا بھی یہی حال ہے ،کئی ماہ سے نجکاری کا عمل جاری تھا،سب کومعلوم تھاکہ کب ،کہاں نیلامی ہونی ہے ،اگر آپ کے خیال میں پی آئی اے کی قیمت اس سے زیادہ ہے تو نیلامی میں اس سے اونچی بولی دیکر خرید لیتے۔

تازہ ترین