جب کبھی بنگلہ دیش اور بھارت میں کشیدگی کی کوئی خبر ملتی ہے تو شہر افسوس (انتظار حسین) اور میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا( کرنل صدیق سالک)کے دل گرفتہ قاری کی طرح تجسس بڑھ جاتا ہے اور لاکھ اپنے بشری جذبات چھپا لیں پر کیرالہ سے بھارتی لوک سبھا کے رکن ششی تھرور کا بھارتی نیتاؤں کو انتباہ’’ کیا کر رہے ہو،نیپال،سری لنکا کے بعد اب بنگلہ دیش کا جھکاؤ پاکستان کی طرف ہو رہا ہے؟ سارک کا اجلاس انہوں نے بلا لیا تو؟‘‘ بڑوں کے اخلاقی درس اپنی جگہ مگر اندر سے جی بڑا خوش ہوتا ہے جب بھارت کی رعونت کو کوئی چوٹ لگتی ہے۔ میرے تو ابھی پیدا ہونے میں سات سال رہتے تھے جب تیئس مارچ انیس سو چالیس کو لاہور میں محمد علی جناح کی صدارت میں وہ جلسہ ہوا جس میں شیر بنگال مولوی ابوالقاسم فضل الحق نے انگریزی میں قراردادِ پاکستان پیش کی جس کا اردو ترجمہ زمیندارکے مدیرمولانا ظفر علی خان نے کیا ۔ اب یہ بات تو جاننے والے جانتے ہیں کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی بہت دیر تک بنگلہ دیش کی معزول وزیر اعظم محترمہ حسینہ واجد کو اپنے پاس مہمان نہیں رکھ سکتی ممکن ہے اس ایجنسی کے اہل کاروں کا خیال ہو کہ حسینہ واجد کا تختہ الٹنے میں جن طالب علموں نے تحریک چلائی تھی اور وہ نوبل انعام جیتنے والے محمد یونس کو برسراقتدار لائے تھے ان میں سے عثمان ہادی کی ہلاکت سے وہ مطلوبہ بدامنی بنگلہ دیش میں پیدا کر لیں گے مگر اب ہادی کے ساتھی مطلب سکندر کے سر پر بھی گولی ماری گئی ہے بنگلہ دیش اور ہمارا رشتہ سانجھ کا ہے اور ان سے بچھڑ کر ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے اور سیکھ رہے ۔
ہیں جیسے جیسے ہمارے ان کے دفاعی اور تجارتی رشتے مضبوط ہوں گے بھارت کی تلملاہٹ بڑھتی جائیگی ۔ ایسے میں مجھے ایک مشرقی پاکستانی؍ بنگلہ دیشی ادیب شہید اللّٰہ قیصریاد آتے ہیں جنہیں جنرل ایوب خان کے زمانے میں جیل بھیج دیا گیا اور چار برس جیل میں رکھا گیا تو انہوں نے بنگالی میں ایک ناول سارنگ بان لکھا جنہیں ان کی مغربی پاکستان کی ساتھی سعیدہ گزدر نے ترجمہ کیا ’’ملاح کی بیوی‘‘ کے عنوان سے جو سید سبطِ حسن کے ساتھ مل کے رسالہ ’پاکستانی ادب‘مرتب کرتی تھیں۔ جن کے افسانوی مجموعے آگ،گلستاں نہ بنی اور آدھی گواہی ہیں ان کا ایک افسانہ کوئل اور جنرل اکادمی ادبیات پاکستان کے رسالے میں چھپا تھا مجھے اسلام آباد کی طرف منہ کر کے ایک ٹھنڈی سانس تو لینے دیں ایک تو اکادمی کے رسالے کی موجودہ تہذیب و تربیت پر اور دو سری سانس کراچی کی طرف منہ کر کے کہ کچھ برس عالم ِخود فراموشی میں رہنے کے بعد سعیدہ گزدر کی وفات کو کئی ماہ گزر گئے مگر میں نے ملتان ،لاہور ،کراچی یا اسلام آباد کے کسی لٹریری فیسٹیول میں ان کے نام کی بازگشت نہیں سنی۔ ممکن ہے کہ جہاں گشت حارث خلیق کی والدہ حمرا خلیق نے انہیں یاد کیا ہو،انگریزی بولنے والی ان کی پیاری بیٹی عائشہ گزدر سے تعزیت بھی کی ہو۔
سعیدہ گزدر کے دو افسانوں کے اقتباس دیکھئے:
’’اس قدر مارپیٹ ،اذیت اور بدکلامی کے باوجود وہ(دیہاتی) خوش تھا کہ نجات مل گئی ہے ،تھانیدار نے دروازے میں کھڑے کانسٹیبل کو اشارہ کیا، دیہاتی بکری کھول کے باہر نکل ہی رہا تھا کہ پیچھے سے گولی چلی ،دھماکہ پہلے ہوا،دیہاتی بعد میں گرا،دوسرے ہی لمحے وہ خون میں لت پت پڑا تھا،ذرا دیر تڑپا،پھرآنکھیں پتھرا گئیں،: اس بکری کو کہاں باندھوں دودھ دینے والی ہے؟ ،پیچھے مسجد کے احاطے میں باندھ دو،جب تک دودھ دیتی ہے،ٹھیک ہے:(ڈاکو۔۔۔ آدھی گواہی)‘‘
’’جب جنگ چھڑی تو ہمارے یہ دانشور سرکاری جیپ میں علی حیدر،علی حیدر کا نعرہ لگاتے،جنگی ترانے گاتے،سڑکوں پر گھومتے رہے ،پھرایک دن اچانک بیوی بچوں سمیت غائب ہو گئے اور گھبراہٹ میں اپنا پالتو کتا بھول گئے،بے چارہ جانور بھوک پیاس سے بے تاب ہوکر بُری طرح بھونکنے لگا تو انکے پڑوسی نے دیوار پھاند کر اسے نکالا اور اپنے گھر لے گئے (تمغہ۔۔ آگ گلستاں نہ بنی)‘‘
البتہ میں نے اپنی شاگرد ثمینہ ناز سے بات کرنے کی کوشش کی جس نے سعیدہ گزدر کی ادبی خدمات پر ایم فل کا مقالہ لکھا تب سعیدہ گزدر کی بیٹی نے انکی حالتِ خود فراموشی سے آگاہ کیا البتہ اپنے والدین کی جوانی اورخوبصورتی کو برقرار رکھنے والے البم سےکچھ تصویریں نکال کے دیں مگر شاید ثمینہ عمرے پر گئی ہیں سو ان کے ہمراہ جانے والی مجیدہ عزیزسے تعزیت کی۔
٭ ٭ ٭
ڈاکٹر مختار پارس نے ایم اے انگریزی کیا سی ایس ایس کیا اور ہمارے استاد چوہدری نذیر احمد مرحوم کی طرح کیبنٹ ڈویژن میں جوائنٹ سیکرٹری ہو گئے مگر ان کا لکھنا پڑھنا جاری رہا سو انہوں نے تھامس ہارڈی کے ضخیم ناول ریٹرن آف دی نیٹوکا ترجمہ زمیں زاد کی واپسی کے عنوان سے کیا اس ترجمے میں انکے اسلوب میں ایک والہانہ سرشاری ہے کہ انکے استاد پروفیسر کاظمی نے انہیں پڑھایا اور اس میں انہوں نے مقامیت کے تاثر کو بڑھانے کیلئے کہیں نامور مصوروں استاد اللّٰہ بخش اور صادقین کا ذکر کیا اور اپنی زندگی دینِ متین کی اشاعت کیلئے وقف کرنے کا عزم کیا۔میرے پاس کوئی عملہ تو ہے نہیں میں نے کینیڈا میں اپنے گھر کے سامنے برف صاف کرتی اپنی نواسی علیزہ صدیقی سے کہا کہ مجھے ہارڈی کے ناول کے اصل روپ کی کاپی بھیجو کہ کچھ حصوں کا تقابل کر سکوں ۔ مجھے یہاںمعذرت کرنی ہے گزشتہ کالم میں میں نے بھٹو کی کتاب ’’اگر میں قتل کیا گیا‘‘ میں کیمپ ڈیوڈ کے معاہدے کے لئے لکھا کہ یہ حسنی مبارک کے دور میں ہوا جبکہ یہ انورالسادات کے دور میں ہوا دوسرے اس سے پہلے بھی میں نے میں نے غازی صلاح الدین کے افسانوی مجموعے ’’ جینا وعدہ خلافی ہے‘‘ کا نام ’’جینے کی پابندی‘‘ لکھ دیا جو خالدہ حسین کے مجموعے کا نام ہے۔اس طرح خوشی بھی ہوتی ہے کہ بعض احباب توجہ سے پڑھتے ہیں۔