• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے متعلق ان گنت اسباب بیان کئے جاسکتے ہیں مگر میری دانست میں سقوط ڈھاکہ کی بنیادی وجہ ہمارے حکمران طبقے کے ہاں برس ہا برس سے پنپ رہی یہ سوچ تھی کہ جاہل ،اجڈ اور گنوار بنگالی پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں لہٰذا جس قدر جلد ممکن ہو ،انہیں الگ کردیا جائے۔مشرقی پاکستان کے ایک اہم کردار میجر جنرل رائو فرمان علی ،علی حسن کی تصنیف ’’پاکستان جرنیل اور سیاستدان‘‘میں صفحہ نمبر 167پردوران انٹرویو کہتے ہیں کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ اقتدار بنگالیوں کواس لئے جانا تھا کہ وہ آبادی میں زیادہ تھے ۔قومی اسمبلی میں انکی نشستیں زیادہ تھیں لیکن پاکستان میں ایک ایسا طبقہ پیدا ہوگیا تھا جو انہیں اقتدار نہیں دینا چاہتا تھا۔ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل اکبر جو بعد ازاں برطانیہ میں پاکستان کے سفیر بھی رہے انہوں نے میرے سامنے یہ بات کہی تھی کہ ہم ان حرام زادوں کو اقتدار نہیں دیں گے۔اس پر میں نے کہا تھا They are bastard to us then we are bastard to them یعنی اگر وہ ہمارے نزدیک حرام زادے ہیں تو ہم بھی ان کے نزدیک حرام زادے ہیں۔ بنگالیوں سے متعلق یہ سوچ کسی ایک فوجی افسر کے خیالات پر مبنی نہ تھی بلکہ بیشتر فوجی افسران اسی قسم کی رائے رکھتے تھے ۔جنرل آغا محمد یحییٰ خان کے پیشرو فیلڈ مارشل ایوب خان نے ’’Diaries of Field Marshal Mohammad Ayub Khan‘‘ میں متعدد مواقع پر اسی قسم کے خیالات ظاہر کئے ہیں ۔مثال کے طور پر ایک جگہ لکھتے ہیں کہ’’ بنگالی منفی سوچ اور رویے کے حامل ہیں ،یہ ہمارے ساتھ نہیں رہیں گے ،انہیں پچھتانا پڑے گا۔‘‘بریگیڈیئر صدیق سالک جو ان دنوں مشرقی پاکستان میں آئی ایس پی آر کے نوجوان افسر کے طور پر تعینات تھے ،انہوں نے اپنی تصنیف Witness to suurender جس کا اردو ترجمہ ’’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا ‘‘کے عنوان سے ہوا ہے ،اس میں کئی ایسے واقعات بیان کئے ہیں مثال کے طور پر وہ صفحہ نمبر 45پر لکھتے ہیں کہ جنرل یحییٰ خان کے ایک معتمد جرنیل دسمبر کے آخر میں وہاں(یعنی ڈھاکہ )پہنچے اور گورنمنٹ ہائوس میں ایک ضیافت کے بعد ارباب حل و عقد کی سوچ سے تنا پردہ اُٹھایا ’’آپ فکر نہ کریں ہم ان کالے حرامیوں کو اپنے اوپر ہرگز حکومت نہیں کرنے دیں گے‘‘۔یہ بات شاید مجیب الرحمان تک بھی پہنچ گئی۔انہوں نے انتخابات کروانے کا وعدہ پورا کرنے پر یحییٰ خان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے تنبیہ کی کہ’’ ان سازشیوں کو لگام دیں ورنہ مشرقی پاکستان کے عوام ان سے بانس کی چھڑیوں سے نمٹیں گے۔‘‘مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ہماری اشرافیہ کا رویہ نہیں بدلا اور اسی قسم کی سوچ دیگر چھوٹے صوبوں کے بارے میں اُبھر کر سامنے آتی رہی۔تیسرے فوجی حکمران جنرل ضیاالحق کے دور میںجنرل سوار خان کے بعد جنرل غلام جیلانی خان پنجاب کے گورنر بن گئے۔سیدہ عابدہ حسین کے مطابق جنرل غلام جیلانی ہی وہ شخص ہیں جنکی انٹیلی جنس رپورٹ کی بنیاد پر جنرل ضیاالحق نے مارشل لا لگانے کا فیصلہ کیا اور یہی وہ جنرل ہے جس نے حیدرآباد سازش کیس میں عبدالولی خان اور بلوچ رہنمائوں کے خلاف ثبوت پیش کئے ۔سیدہ عابدہ حسین اپنی کتاب ’’پاور فیلیئر ‘‘ میںلکھتی ہیں کہ بلوچ اور پختون رہنما لاہور آتے توانکے گھر قیام کرتے۔انہی دنوں جب خان عبدالولی خان انکے گھر ٹھہرے ہوئے تھے تو نگرانی کیلئے خفیہ اہلکاروں کی ایک جیپ گھر کے باہر کھڑی رہتی ۔دراصل ان کے شوہر سید فخر امام نے ضیاالحق کے دور میںوفاقی وزیر بلدیات کا عہدہ قبول کرلیاتھا اور وہ خود اپوزیشن میں تھیں۔ایک روز گورنر پنجاب جنرل غلام جیلانی خان نے سیدہ عابدہ حسین کو طلب کیا اور بتایا کہ آپ کے گھر کے باہر دو گاڑیاں کھڑی کرنا پڑتی ہیں ایک آپ کے شوہر کے پروٹوکول کیلئے اور دوسری ولی خان کی نگرانی کیلئے۔عابدہ حسین نے کہا ،آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟ولی خان ہمارے معزز مہمان ہیں ۔باوجود اس کے کہ وہ پکے جمہوریت پسند ہیں اور فخر امام موجودہ فوجی حکومت میںوزیر ہیں ،وہ اس حقیقت کو نظر انداز کرکے اپنی اہلیہ کے ہمراہ ہمارے گھر میں قیام کرتے ہیں۔جنرل جیلانی نے اس موقع پر ایک ایسی بات کہی جو اسٹیبلشمنٹ کی اجتماعی سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔

عابدہ حسین کے مطابق جنرل غلام جیلانی نے کرخت لہجے میں کہا،’’دیکھیں بیگم عابدہ!میں نے سرحد ،حتیٰ کہ سندھ اور بلوچستان میں بھی ڈیوٹی کی۔یہ چھوٹے صوبوں والے کچھ بھی نہیں ہیں ۔پنجاب ہی پاکستان ہے ،یہ کبھی مت بھولئے گا۔یہ کہتے ہوئے جنرل غلام جیلانی نے میز پر مکا مارا ۔مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا ۔میں غصے میں پھٹ پڑی اور کہا،جنرل ،بلوچستان ،سرحد ،سندھ اور پنجاب پاکستان ہے یہ بات کسی کو نہیں بھولنی چاہئے اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد تو بالکل بھی نہیں‘‘۔ یہ باتیں یوں یاد آئیں کہ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی ارکان اسمبلی اور صوبائی وزرا کے ہمراہ لاہور آمد پر جو مناظر دیکھنے کو ملے ،وہ نہایت تکلیف دہ تھے ۔بلاشبہ خیبرپختونخوا کے وزرا کی طرف سے اخلاق سے گری ہوئی غلیظ گفتگو کی گئی لیکن پنجاب حکومت کو وسعت قلبی کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا۔پنجاب کے لوگ اپنی فراخدلی کیلئے مشہور ہیں۔مگر وزیراعلیٰ مریم نواز اور انکی حکومت نے آداب مہمان نوازی کو یکسر فراموش کرکے بہت منفی تاثر چھوڑا ہے ۔عظمیٰ بخاری صاحبہ کی طرف سے جس طرح ’’جانگلی ‘‘ جیسے الفاظ استعمال کئے گئے اور ’’منشیات فروشـ‘‘کی پھبتی کسی گئی ،اس سے وفاق کی اکائیوں کے درمیان فاصلے مزید بڑھ گئے۔ تحریک انصاف کی سیاست پر تنقیدمیں کوئی حرج نہیں لیکن گزشتہ چند ماہ سے پختون معاشرے پر پھبتیاں کسی جارہی ہیں اور اس طرح کا پیغام دیا جارہا ہے کہ یہ سب لوگ شرپسند ،ملک دشمن اور غدار ہیں۔ایک طرف تحریک انصاف پختونوں کو اپنی سیاست کی بھٹی میں بطور ایندھن جھونکنے کیلئے بہادر اور غیرت مند قرار دیتی ہے تو دوسری طرف ہماری اشرافیہ انہیں بے وقوف اور دہشتگرد ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے جسکے نتیجے میںدوریاں بڑھتی جارہی ہیں۔کیا حکمران طبقہ ایک بار پھراس مغالطے کا شکار ہے کہ پنجاب ہی پاکستان ہے؟

تازہ ترین