• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہا جاتا ہے کہ وقت زخموں پہ مرہم رکھ دیتا ہے پر قومی سیاسی وجود کو کچھ گھاؤ ایسے لگے ہیں جنکی کسک لاکھوں دلوں میں ہے اور انکے تصور سے بے مروت آنکھیں بھی نم ناک ہو جاتی ہیں۔ انہی میں ایک محترمہ بے نظیر کی شہادت کی شام ہے۔ اس سے نو دن پہلے کارساز کا سانحہ پیش آ چکاتھاجب ان کے ٹرک پر خود کش حملہ ہوا تھا کافی کارکن شہید ہو گئے ۔ ستائیس دسمبر کی شام کراچی میں نیپا کے ہال میں ایک سیمینار ہو رہا تھا۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری ، جمیل الدین عالی، افتخار عارف، نجیب جمال اور ایک ملتانی بھی ڈاکٹر منظور احمد کا مقالہ بہت انہماک سے سن رہے تھے جب میری بیٹی نویرہ کا فون آیا ہچکیوں میں اس نے کہا ’’ظالموں نے اسے مار دیا ہے‘‘ میں نے آہستہ سے کہا حملہ ہوا ہو گا مگر اس نے کہا ’’ انکی وفات کی تصدیق کر دی گئی ہے‘‘۔ تب مجھ سمیت کچھ لوگوں نے فرمان صاحب کو چٹ بھیجی کہ تقریب کو اس سانحے کی وجہ سے ملتوی کر دیا جائے۔ ایسا ہوا تو کراچی کے احباب کو تو ردِ عمل کا اندازہ تھا وہ فوری طور پر اپنے گھروں کی طرف روانہ ہو گئے، تاہم جب ہم ڈاکٹر تنظیم الفردوس کی گاڑی میں جامعہ کراچی کے گیسٹ ہاؤس پر جانے کے لئے باہر نکلے تو قیامت برپا تھی کئی گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی تھی شیشے توڑے جارہے تھے اور دھماکے بھی ہو رہے تھے اور بہت سے مظاہرین ننگے پاؤں تھے انکے ہاتھوں میں درختوں کے تنے تھے، تب میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ لیاری کے مزدوروں کویوں بپھرتے اور بلکتے دیکھا۔ میں نے درد کے مشترک احساس کی بنیاد پر ان میں سے ایک لیڈر دکھائی دینے والے سے کہا ’’ہم سب بھی بی بی کا دکھ منا رہے ہیں اور دیکھیں ہماری یہ گاڑی بھی ایک خاتون استاد چلا رہی ہے جس کے چھوٹے چھوٹے بچے گھر میں انتظار کر رہے ہیں۔‘‘ اس لیڈر نے ان لوگوں سے جن کے ہاتھوں میں پٹرول کی بوتلیں تھیں، کہا یہ گاڑی لیڈیز چلا رہی ہے انہیں جانے دو ۔

چنانچہ ہمیں راستہ دیدیا گیا مگر اسکے بعد ہماری طرح کے لوگ حواس باختہ تھے کہ سڑکوں پر بڑے بڑے پتھر رکھ دیئے گئے تھے جگہ جگہ آگ جل رہی تھی ،ڈاکٹر معین الدین عقیل کی گاڑی کی ونڈ اسکرین ٹوٹی ہوئی تھی اوران کے ماتھے سے خون بہہ رہا تھا انہوں نے اشارے سے ہمیں کہا کہ ایک جاپانی طالب علم نشی مورا کو اپنے ساتھ بٹھا لیں تب مجھے معلوم نہیں تھا کہ فیصل آباد یونیورسٹی سے میری اگلی منزل اوساکا یونیورسٹی ہوگی اور نشی مورا سے ایک اور طرح سے تعارف ہو گا۔

بے نظیر نے ہر طرح کا دور دیکھا، ان کی کردار کُشی کی مہم چلی مقدمے ہوئے وہ اقتدار میں آتیں پھر کسی عذر پر انکی حکومت رخصت ہو جاتی پھر آخر میں ’’فاروق بھائی‘‘ نے انکی حکومت توڑی تھی تاہم ہر بحران کے بعد وہ مزید تجربہ کاراور بہتر مقرر ہوتی گئیں۔ میں نے پہلی دفعہ انہیں کوئٹہ میں یحییٰ بختیار کے گھر پر دیکھا تھا۔ ہم چھ چھ کے گروپ میں لوگ تھے جو بھٹو کی پھانسی پر تعزیت کر رہے تھے انکی والدہ ان کیساتھ بیٹھی تھیں پھر وہ جب اقتدار میں آئیں تو سوالیوں کا ایک ہجوم انکے گرد تھا مگر جب غلام اسحاق خان نے انکی حکومت برطرف کی تو یہ ہجوم کافی کم ہو گیا لیکن ملتان کے صحافیوں کو جس طرح کوڑے مارے گئے کالونی ٹیکسٹائل ملز میں مزدوروں کا قتلِ عام ہوا استادوں کو جیل میں بھیجا گیا اسلئےبے نظیر کی صدارت میں ’’جنوبی پنجاب کے مسائل‘‘ پر جو سیمینار ہوا اس میں حیدر عباس گردیزی، ملک الطاف کھوکھر کیساتھ میں نے چند باتیں کیں،جن میں ایک مخصوص فضا کے سبب کچھ دردمندی اور کچھ تاثیر پیدا ہو گئی سو بی بی نے مجھ سے کہا ’’ آپ نے میرے لئے بھی ایک تقریر لکھنی ہے ‘‘ ملتان کے ایک اور سیمینار کے بعد ان سے سید حسن رضا گردیزی کے گھر پر ملاقات بھی ہوئی۔ ان پر بہت سی کتابیں لکھی جا رہی ہیں خود انہوں نے بھی بہت لکھا ، ابھی اسی ہفتے پروفیسر فتح محمد ملک کی کتاب’’دخترِ ملّت بے نظیر شہید: فکر و عمل ‘‘ سنگِ میل لاہور نے شائع کی ہے جس میں آنا سوو اروو،واجد شمس الحسن، فرخندہ بخاری، وکٹوریا سکو فیلڈ، کی کتابوں کے ساتھ بے نظیر کی اپنی کتابوں کے بھی حوالے ہیں مگر مجھے چونکایا ہے سیدہ عابدہ حسین کی کتاب اور انور سیف اللّٰہ (غلام اسحاق خان کے داماد) کے انٹرویو نے اور بہت معصوم اور پیارے فتح ملک صاحب کی وکالت نے۔

بی بی کی برسی پرگڑھی خدا بخش کے قبرستان سے تازہ ترین صوتی تصویر شہناز شورو نے بھیجی ہےوہاںسے، جہاں غریب لوگوں کی امید بننے والے ذوالفقار علی بھٹو کی صدا کو اللّٰہ گنگ نہیں کیا جا سکا۔ ’’رقص کرنا آتا ہے،اس لئے کہ مجھے میوزک پسند ہے،میں اس وقت دیوار پر لگا ہوا ایک ساکت پھول بن کر نہیں رہ سکتا،جب دوسرے رقص میں مصروف ہوں… میری ماں کا تعلق غریب خاندان سے تھا اسے غریبوں کی غربت بہت کھٹکتی تھی۔ میں امریکہ کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں پڑھنے گیا، میں لال نیل پالش لگانے والی لڑکیوں سے دور رہتا تھا اور ایسی اسٹریٹ میں جا کے رہا، جہاں نیگروز رہتے تھے‘‘ (ترجمہ رؤف کلاسرا) بی بی نے بھی اپنی ایک کتاب میں یہ سوال اٹھایا تھا ’’تہذیبوں کی کشمکش آپ کے اپنے سماج میں جاری ہے، فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ اپنے ماضی کی جذباتی تعبیر کا خود کش تعاقب کرنا ہے یا اپنے حال کوایک چیلنج کے طور پر قبول کرنا ہے؟

تازہ ترین