• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف اب بھی اس مخمصہ سے باہر نہ آسکی کہ ’مذاکرات‘ کرنے ہیں کہ ’اسٹریٹ موومنٹ‘ ۔یہاں انکے اتحادیوں نے تحریکِ تحفظ آئین کے تحت حکومت سے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی وہاں بانی پی ٹی آئی کی بہن علیمہ خان نے اعلان کردیا کہ جو بات چیت کرے گا وہ ہم میں سے نہیں۔ یہ کہنا تھا کہ نوجوان وزیراعلیٰ کے پی عوامی رابطہ مہم پر پنجاب پہنچ گئے۔ تاہم پی ٹی آئی کے معتدل رہنما اور خود تحریکِ تحفظ آئین کے رہنما محمود خان اچکزئی اب بھی پر امید ہیں کہ بات چیت کا کوئی درمیانی راستہ ضرور نکلے گا۔ ایسی ہی خواہش شاید خود پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بھی سنجیدہ لوگوں کی ہے تو دراصل رکاوٹ کیا اور کہاں ہے؟۔

سیاست بہرحال گفتگو کا نام ہےجس کو ہم نے اب ’’گالم گلوچ‘‘ میں تبدیل کردیا ہے۔ خراب اور گندی زبان کی بھی ہماری ایک سیاسی تاریخ ہے۔ البتہ اُس وقت بات صرف اخبارات تک محدود ہوتی تھی اب سوشل میڈیا کے آنے کے بعد ایسی زبان سرِ عام استعمال ہورہی ہے۔

حکمرانوں اور حکمران جماعت اور اُن کے اتحادیوں کا اپنامخمصہ ہے ،جنکی سیاست کا محور اِس وقت ’مائنس بانی پی ٹی آئی ہی نہیں بلکہ مائنس پی ٹی آئی ‘نظر آرہا ہے ۔اور ہماری سیاست انہی دو مخمصوںکے درمیان نظر آرہی ہے۔ حکمرانوں کا ’زعم‘ کہیں یا ’گھمنڈ‘ کے اُن کو ’تیسری قوت‘ کی حمایت حاصل ہے تو دوسری طرف اپوزیشن سمجھتی ہے کہ عوام اُن کے ساتھ ہیں، اور وہ ’اسٹریٹ پاور‘ سے حکومت کو مجبور کرسکتے ہیں اپنے مطالبات کی منظوری پر جس میں سرِفہرست بانی کی رہائی اور 8؍فروری، 2024 کے مینڈیٹ کی واپسی ہےجبکہ حکومت مذاکرات ’غیر مشروط‘ کرنا چاہتی ہے مگر اُس کیلئے خود ہی شرائط بھی عائد کردی ہیں۔ مثلاً 8؍فروری اور بانی کی رہائی پر بات نہیں ہوگی۔

جمہوریت نام ہے برداشت کا جبکہ ہم اس کلچر سے کوسوں دور چلے گئے ہیں ایسے میں آخر درمیانی راستہ کیاہوسکتا ہے اور کیا کوئی سنجیدہ بھی ہے یہ راستہ نکالنے کیلئے؟۔ سال 2025ءتقریباً ڈیڈلاک میں ہی گزرا ہے اور حیران کن بات یہ ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق جو ایک معتدل سیاستدان ہیں اب تک قائدِحزبِ اختلاف کا اعلان کرنے میں’اگر مگر‘ کا شکار ہیں۔ اگر اپوزیشن نےسینئر سیاستدان محمود خان اچکزئی کا نام دیا ہوا ہے تو آخر اعلان میں کیا قباحت ہے اور شاید اسی وجہ سے نئے چیف الیکشن کمشنر کا مہینوں گزرنے کے باوجود اعلان تو دور کی بات حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ناموں کا بھی تبادلہ نہیں شروع ہوا۔

اپوزیشن کو تو ایک طرف رکھیں اس سال حکومت کے بعض اقدامات نے خود اُن کو بہت کمزور کردیا ہے۔ مگر شاید اس کمزوری کا احساس انہیں اُس وقت ہوگا جب وہ حکومت میں نہیں ہوں گے کیونکہ بہر حال اقتدار کے ایوانوں سے اصل دنیا نظر نہیں آتی۔ میری مراد 26ویں اور پھر 27 ویں ترامیم سے ہے اور 28ویں کو ابھی صرف افواہ کا درجہ حاصل ہے ،حقیقت سے سب بے خبر ہیں۔ آئینی عدالت بن گئی اب یہی عدالت’ آئین کی تشریح‘ کیا کرے گی اور ظاہر ہے ہر دور میں کرے گی۔ ویسے تو ماشااللّٰہ اس آئین کی تشریح جس طرح ایوب خان، جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے دور میں کی گئی کیا یہ اُس سے مختلف ہوگی؟

اُس کی ہلکی سی جھلک ہمیں نظر آئی جب سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے کچھ ججز نے استعفیٰ دیا۔ لہٰذا اعلیٰ عدلیہ یا آئینی عدالت کے حوالے سے اور اُن کی آزادی کے حوالے سے سنجیدہ سوالات موجود ہیں۔

ایسا ہی کچھ حال یا شاید اس سے بھی بُرا ’میڈیا‘ کا ہے بات سنسر شپ سے نکل کر ’اشاروں‘ کی صحافت تک آ گئی ہے۔ جیسا اشارہ ویسی صحافت۔ ’مذاکرات‘ ہر حال میں تصادم یا مفاہمت سے بہتر ہیں کیونکہ تصادم کے نتائج اکثر دونوں فریقوں کیلئے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ البتہ ’بات چیت‘ غیر مشروط نہیں ہوا کرتی اس کی ابتدا کچھ اعتماد سازی سے ہوتی ہے جسکی شروعات حکومت کرسکتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو اِس مخمصہ سے باہر آنا ہوگا کہ پی ٹی آئی کو اسپیس دینے سے اُنہیںسیاسی نقصان ہوگا۔ عین ممکن ہے وقتی نقصان ہو بھی، تب بھی مقابلہ سیاسی میدان میں ہی ہوسکتا ہے۔ لہٰذا لیڈر آف دی اپوزیشن کا تقرر اور نئے چیف الیکشن کمشنرکا تقرر عین آئینی بھی ہوگا اور ان اقدامات سے سیاسی کشیدگی دور کرنے میں مدد ملے گی اور حکومت کی ساکھ بھی بہتر ہوگی۔ ویسے تو وزیرِ اعظم جنہوں نے بات چیت کی دعوت دی اور بھی کئی اقدامات کرسکتے ہیں مثلاً پی ٹی آئی کو جلسہ کرنے کی اجازت سے لے کر کچھ سیاسی قیدیوں جن پر سنگین الزامات نہیں ہیں اُن کی رہائی وغیرہ وغیرہ ۔

دوسری طرف تحریک انصاف کو طے کرنا ہوگا کہ وہ تحریک ’تحفظِ آئین‘ کے پلیٹ فارم سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں یا تحریکِ انصاف کے۔دونوں کام ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ بہتر ہے کہ تحریک کے رہنما اچکزئی ،راجہ ناصر عباس، بیرسٹرگوہر ، اسد قیصر اور سلمان راجہ پہلے خود علیمہ خان اور دیگر سے مل کر ایک موقف پر متفق ہوں۔ کیونکہ موجودہ پالیسی کا فائدہ تو بہرحال حکومت کو ہورہا ہے۔ اور پی ٹی آئی کا ورکر کنفیوژن کا شکار ہے۔ پہلے اسٹریٹ موومنٹ پھر مذاکرات یا پہلے مذاکرات پھر اسٹریٹ موومنٹ۔

البتہ ایک بات طے ہے کہ سال 2026 شاید کچھ بہتری کی اُمیدیں سامنے لائے ابھی تو ہم بحیثیت قوم مخمصوں کی سیاست کے یرغمال ہیں ایسے میں کیا عام آدمی کی زندگی میں تبدیلی آئے گی۔

تازہ ترین